ایک اعلیٰ ترین اجلاس میں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے اعلان کیا کہ کیسکو کے معاملات کو دیکھنے کے لئے صوبائی اسمبلی کی ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی تاکہ عوامی اہمیت کے تمام مسائل کو جلد سے جلد حل کیاجاسکے ۔ یہ فیصلہ انہوں نے ان شکایات کے بعد کیا کہ کیسکو انتہائی سست رفتاری سے کام کررہی ہے ، عوامی نمائندوں اور شریف لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور لوگوں کی مشکلات میں زیادہ اضافہ کرتی ہے ۔ کیسکو کے بعض عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صوبائی حکومت کے نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے ماتحت ہیں جہاں سزا اور جزا کا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہیں خصوصاً وفاقی حکومت کے ان تمام ملازمین پر جو صوبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے اربوں روپے کیسکو کو فراہم کیے ہیں اور کام کرنے سے پہلے ادا کیے ہیں لیکن اکثر بجلی سے متعلق مسائل اور منصوبے سالوں سے حل نہیں ہورہے۔ یہی شکایات عام صارفین کو بھی ہیں انہوں نے دباؤ میں آ کر ادائیگیاں کی ہیں لیکن سالوں سے ان کے مسائل حل نہیں ہورہے۔ کیسکو کے لوگ زیادہ تر دھونس اور دھمکی سے کام لیتے ہیں کہ آپ کی بجلی بند کردی جائے گی ۔ حکومت کو چائیے کہ کیسکو کو عوام اور عوامی نمائندوں کے سامنے جوابدہ بنائے ، ان کے تکبر اور غرور کا مناسب علاج تلاش کیاجائے ۔ اس لیے روز اول سے ہم یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ تمام وفاقی اداروں کوجو صوبوں میں کام کررہے ہیں یا خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کو صوبائی حکومت کے ماتحت کیاجائے اور ریموٹ کنٹرول کا وفاقی نظام دفن کیاجائے ۔صوبائی حکومت بھی پاکستان اور اس کے وفاق کی نمائندگی کررہی ہے اسلئے اس میں کوئی حرج نہیں کہ ان سب اداروں کو صوبائی حکومت کی تحویل میں دیاجائے تاکہ سزا اور جزا کا فیصلہ موقع پر ہی ہو ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیسکو صوبائی حکومت کے تعاون سے ایک پانچ سالہ منصوبہ تیار کرے جس کا بنیادی مقصد بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں بجلی پہنچانا اور قومی گرڈ اور ٹرانسمیشن لائن کی پورے بلوچستان میں توسیع ہو تاکہ بلوچستان میں بجلی کا بحران ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکے ۔ جہاں تک اس پر سرمایہ کاری کی بات ہے یہ بلوچستان کے عوامی نمائندوں اور سیاسی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قیمت پر وفاقی حکومت سے وسائل حاصل کریں اور ٹرانسمیشن لائن کو مکران ‘ خاران ‘ چاغی اور صوبے کے دوردراز علاقوں تک پہنچائیں ۔ موجودہ ٹرانسمیشن لائن جو انتہائی بوسیدہ حالت میں ہے اس کو تبدیل کیا جائے تاکہ دوردراز علاقوں میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایاجاسکے ۔ موجودہ ٹرانسمیشن صرف 400میگا واٹ لوڈ اُٹھا سکتی ہے اس میں متعلقہ محکمے کے افسران اور انجینئرز کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ قصور صوبائی حکومت اور بلوچستان کے عوامی نمائندوں کا ہے جو وفاقی پارلیمان میں بیٹھے ہیں اور اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں ۔ اگر وہ لوگ اپنے مسائل کو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھائیں اور پارلیمان میں اس پر بحث کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ بلوچستان کے بجلی کے اور دیگر مسائل حل نہ ہو ں۔ ہم نے ان کالموں میں صوبائی حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ بین الاقوامی اداروں ‘ خصوصاً اقتصادی اداروں سے رابطہ کریں اور ان سے فنی اور مالی مدد طلب کریں تاکہ بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں ‘ اسپتالوں اور رفاہ عامہ کے اداروں کو سولر پاور فراہم کیا جاسکے ۔ سندھ، کے پی کے ایشیائی ترقیاتی بنک سے اس قسم کی امداد حاصل کررہے ہیں ۔اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسے تمام ادارے زیادہ پسماندہ بلوچستان کو اس قسم کی امداد فراہم نہ کریں ۔ صوبائی حکومت متعلقہ وفاقی وزارت سے امداد طلب کرے تاکہ ان اداروں سے رابطہ قائم ہو بلکہ امداد کے حصول میں بلوچستان کی مدد بھی کریں ۔