چےئرمین سینٹ نے حکومت کے رویے کے خلاف کام چھوڑ دیا، انہوں نے ایران کا اپنا مجوزہ دورہ بھی منسوخ کردیا اور سرکاری پروٹوکول بھی لینے سے انکار کردیا ،ماتحت افسران کو حکم دیا کہ وہ کوئی فائل ان کے پا س نہ بھیجیں کیونکہ وہ چےئرمین سینٹ نہیں رہے ۔انہوں نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ اگر وہ ایوان کا وقار بحال نہیں کر سکتے تو ان کاعہدے پر فائز رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ ن لیگ‘ اے این پی اور متحدہ کے اراکین سینٹ نے چےئرمین سینٹ رضا ربانی کے اقدامات کو درست قرار دیا۔ بعض سینیٹرز حضرات نے اعلان کیا کہ اگرچےئرمین سینٹ اپنے عہدے سے احتجاجاً مستعفی ہوتے ہیں تو وہ بھی ایوان سے استعفیٰ دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنیادی طورمرکزیت پسند حکمران سینٹ کے ادارے سے نفرت کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کو ملک کی بادشاہت ملی ہے اور وہ اسی تصور کے ساتھ حکمرانی کریں گے۔ وہ حکمران وقت ہیں اس لیے وہ آئین اور قانون سے بالا تر ہیں ،وہ کسی بھی فورم یا ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں اس لیے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس سے غیر حاضر رہتے ہیں ،ایوان کی کارروائی میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے ۔ کراؤن پرنس اور وزیر داخلہ نے اپنا نائب چن لیا ہے اس لیے وہ ایوان میں حاضر نہیں ہوں گے یہ تکبر اور غرور کی انتہا ہے کہ ایک طرف اپنے آپ کو عوامی نمائندے کہتے ہیں اور ساتھ ہی قانون اور آئین سے بالا اور کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں ۔چونکہ وزیراعظم ایوان میں آنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اس لیے اس کے تمام نائبین بھی اسی طرز عمل کا مظا ہرہ کرتے ہیں وہ بھی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس میں نہیں آتے۔ اس پر اے این پی کے سینیٹر اور رہنماء زاہد خان نے الزام لگایا کہ وزراء کرپشن میں لگے ہوئے ہیں اور دولت دونوں ہاتھوں سے بٹور رہے ہیں اس کماش کے سیاستدانوں کا جمہوری اداروں پر نہ کوئی اعتماد ہے اور نہ ہی وہ وفاقیت کی روح کو سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے طرز عمل سے سینٹ کے ادارے کو زیادہ نفرت اور حقارت کا نشانہ بنایاکیونکہ وہ وفاقیت کی نمائندگی کرتی ہے اوریہاں سے چھوٹے صوبوں کے لئے وقتاً فوقتاً آواز اٹھتی رہتی ہے ۔ چوہدری نثار اور اس کماش کے دیگروزراء نے شاید ایک آدھ بار سینٹ اجلاس میں شرکت کی ہوگی ۔وزیراعظم ادارے سے نفرت کی وجہ سے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے تو ان کے وزراء ان کی پیروی میں یہی عمل دہراتے ہیں ۔ عمران خان کا یہ الزام درست ہے کہ یہ بادشاہ ہیں اور بادشاہی طرز پر حکومت چلا رہے ہیں ۔ اسکی واضح مثال یہ ہے کہ حکمران کسی طرح سے بھی 18ویں ترمیم پر عمل کرنے کو تیا رنظر نہیں آتے، صوبائی خودمختاری سے متعلق نفرت کا اظہار اس وقت سامنے آیا جب 18ویں ترمیم منظور ہوئی تو اس خبر کو پاکستان کے 60ٹی وی چینلوں نے مکمل بلیک آؤٹ کیا ۔ اس کے بجا ئے ہندوستانی ٹینس کھلاڑی ثانیہ مرزا کی شادی کی میراتھن کوریج کی گئی ،کئی دنوں تک اس کی خبریں چلائی گئیں اور 18ویں ترمیم کی منظوری کی خبر تک نشر نہیں کی گئی ۔اس کے علاوہ اسٹبلشمنٹ بھی صوبوں کو کچھ بھی دینے کو تیار نہیں آتی، صوبوں کو اختیارات دینے کا بل تو منظور ہوگیا لیکن اتنے سال گزرنے کے بعد بھی 18ویں ترمیم سے متعلق معاملات جان بوجھ کر حل نہیں کیے گئے ۔ 18ویں ترمیم کی روح رواں سینٹ تھی لیکن مقتدرہ آج تک اس پر عمل درآمد نہیں کرنے دیتی بلکہ آئے دن صوبوں کے اختیارات کسی نہ کسی بہانے سلب کیے جارہے ہیں۔ اس قسم کے منفی حرکات سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اس کی سالمیت کو نقصان پہنچے گا۔ چونکہ حکمران ذاتی مفادات کی نگرانی کررہے ہیں اپنی ذات اور اپنے خاندان کی خدمت کررہے ہیں ،سرکاری اختیارات اور وسائل کو اپنی ذات پر خرچ کررہے ہیں اس سے عوام میں نفرت بڑھنے کا اندیشہ ہے۔