پٹ فیڈر اور کیر تھر کینال بلوچستان کی معیشت میں شہہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ تیسرا بڑا کچھی کینال ابھی زیر تعمیر ہے۔ پٹ فیڈر اور کیر تھر کینال میں پانی کا ضیاع زیادہ ہے ۔اس وقت جتنا بھی پانی دستیاب ہے اس سے زیادہ زمین کو زیر کاشت لایا جا سکتا ہے مثال کے طورپر پٹ فیڈر شاہ پور کے ریگستان سے گزرتا ہے تقریباً تیس میل تک کا طویل نہر اس ریگستانی علاقے میں کچی ہے جس کی وجہ سے پانی زیر زمین چلا جاتا ہے ایک اندازے کے مطابق 300کیوسک پانی ضائع ہوجاتا ہے اور یہی پانی صحبت پور کے علاقے میں سیم اور تھور کا باعث بنتا ہے ۔ اس طرح یہ نا اہل لوگوں کی وجہ سے دہرے آفت کا سبب بنتا ہے دہائیوں سے اس پر توجہ نہیں دی جارہی ۔ اگر پٹ فیڈر کے ریگستانی علاقے میں نہر کو پکا اور سیمنٹ کا بنایا جائے تو ایک طرف کاشت کاری کیلئے تین سو کیوسک اضافی پانی دستیاب ہوگا اور دوسری طرف صحبت پور اور اس کے گردونواح میں سیم اور تھور کا مقابلہ کیا جا سکے گا، اس طرح دو لاکھ سے زائد ایکڑ زمین دوبارہ قابل کاشت بنائی جا سکتی ہے ۔ وفاقی حکومت کو بلوچستان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ وفاقی حکومت میں بلوچوں کی نمائندگی صفر ہے ۔ دوسرے لوگوں کو بلوچستان اور اس کے حقیقی مسائل سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے اس لیے صوبائی حکومت یہ کام اپنے ذمہ لے اور شاہ پور کے ریگستان میں گزرنے والے پٹ فیڈر کو پکا بنایا جائے ۔ او ل تو وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے لئے وسائل مہیا کرے تاکہ دو لاکھ زرخیز زمین کو دوبارہ زیر کاشت لایاجاسکے ۔ دوسری جانب صوبائی حکومت واپڈا پر واضح کر ے کہ کچھی کینال کو پختہ بنایاجائے ۔ کچھی کینال کی تعمیرات میں بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آئے ہیں ، ٹھیکے دار ‘ افسران اورانجینئروں نے کچھی کینال کے نام پر جی بھر کر لوٹ مار کی ہے،پچاس ارب روپے کی لاگت سے بننے والا کچھی کینال اب 125ارب روپے میں بن رہا ہے اور اگر اس کی تعمیر میں مزید تاخیر ہوتی ہے تو اس کے لیے مزید رقم درکار ہوگی ۔ چونکہ یہ بلوچستان کا منصوبہ ہے اس لیے اس میں لوٹ مار کی ہر ایک کو کھلی اجازت ہے۔ کچھی کینال کے پہلے فیز کو اس وقت تک صوبائی حکومت تحویل میں نہ لے جب تک نہر کو پکا نہ بنایاجائے کیونکہ کچے تعمیرات کی صورت میں کینال کا پانی زیر زمین چلا جائے گا اور مزید زمین سیم اور تھور کا شکار ہو گا ۔ سالوں قبل 18ویں ترمیم کے تحت بعض اسکیم اور محکمے صوبائی حکومتوں کے حوالے کیے گئے لیکن انکے اثاثے وفاق نے اپنے پاس رکھ لیے اور اخراجات صوبائی حکومت کے ذمہ لگا دئیے گئے اس میں جدید آبپاشی کا نظام شامل تھا۔ وفاق نے رقم دینے سے انکار کردیا کہ اب یہ صوبائی معاملہ ہے اس لیے صوبہ اپنے وسائل تلاش کرے ، یہ عمل صرف اور صرف بد نیتی پر منحصر تھا۔فنڈز کے لیے اس وقت کے صوبائی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقیات سے رجوع کیا گیاکہ معاشی طورپر یہ اہم اسکیم ہے ، اس سے لاکھوں افراد کو روزگار ملے گا اور بلوچستان غذائی پیداوار میں خود کفیل ہوجائے گا۔ مولانا صاحب جو اس وقت وزیر منصوبہ بندی اور ترقیات تھے ،نے انکار کردیا اور پی ڈی ایس پی کی گٹر اسکیموں پر اربوں روپے خرچ کر ڈالے ، اس طرح کرپٹ عناصر نے اس دولت کو ہڑپ کر لیا مگر آبپاشی کے نئے اور بہتر نظام کے لئے رقم فراہم کرنے سے انکار کردیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ یہ وفاقی اسکیم ہے وفاق اس کے لئے وسائل فراہم کرے ۔ چنانچہ جدید آبپاشی کا نظام کرپٹ عناصر کی وجہ سے قابل عمل نہ ہو سکا۔ یہ آبپاشی کی قطراتی اسکیم تھی جس سے لاکھوں ایکڑ زمین کو آباد کرنا تھا لیکن بلوچستان کے کم فہم وزراء نے گٹر اسکیموں کو زیادہ اہمیت دی جس سے نہ کسی ایک شخص کو روزگار ملا اور نہ ہی حکومت کی آمدنی یا ملکی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ اس لیے ایم پی اے اسکیموں فوراً بند کیا جائے اور وسائل کو صرف معاشی اسکیموں پر خرچ کیاجائے ۔