|

وقتِ اشاعت :   April 21 – 2017

آج کل امریکا کا ہر فوجی ‘ فوجی جرنیل اور فوجی ماہر صرف اور صرف ایران کے خلاف باتیں کرتا ہوا سنائی دے رہا ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ نے اس بات کی تصدیق توکردی کہ ایران نے بین الاقوامی جوہری معاہدہ پر مکمل عمل درآمد کیا مگر یہ پورے خطے میں دہشت گردی میں ملوث ہے ۔ غالباً دنیا کے دیگر بڑے ممالک خصوصاً روس‘ چین اور فرانس نے اعلانیہ طورپر کہہ دیا ہے کہ ایران نے جوہری معاہدہ پر عمل درآمد کیا ہے ۔امریکا ان کی رائے سے انحراف نہیں کرنا چاہتا اس لیے یہ تصدیق کرتا ہے کہ ایران نے جوہری معاہدہ پر مکمل طورپر عمل کیا لیکن امریکا عراق، شام اور دیگر ممالک میں ایرانی افواج کی موجودگی اور مداخلت کا الزام لگاتا آرہا ہے ۔ امریکا شام میں ایران کی موجودگی سے ناراض تھا، اس کے بعد یمن کا واقعہ پیش آیا، ایران کے حمایتی حوثی باغیوں نے پورے یمن پر قبضہ کر لیا ۔ وہاں کی سابقہ حکومت کو بر طرف بلکہ بے دخل کردیا جس کے رد عمل میں سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد بنایا گیا جس کی سرپرستی امریکا اور ناٹو ممالک بھی کررہے ہیں ۔شام کے فوجی اڈے پر میزائل حملے کے بعد امریکا شاید ایران کی طرف رخ کرنا چاہتا ہے ۔ سعودی فوجی مشیر نے وال اسٹریٹ جرنل کو انٹر ویو دیتے ہوئے واضح طوراعلان کیا ہے کہ اسلامی اتحاد صرف دہشت گردی ‘ داعش اور القاعدہ کے خلاف نہیں ہے ، یہ اتحاد حوثی باغیوں کے خلاف یمن میں فوجی کارروائی کر سکتی ہے ۔ اس بیان کے بعد صورت حال صاف اور واضح ہوگئی ہے کہ اس کا مقصد علاقائی امن ہے اور اتحاد کی بالادستی قائم کرنا ہے ۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ سعودی حکومت جلد یا بدیر حوثی باغیوں کے خلاف زمینی حملے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اتحادی طیارے پہلے ہی یمن پر بمباری کررہے ہیں اور یمن کو اس بمباری سے شدید نقصان پہنچ چکا ہے ۔ بلکہ یمن میں ناکہ بندی کی وجہ سے زبردست قحط پیدا ہوچکی ہے اور چالیس لاکھ سے زائد لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں ۔ ایک طرف یمن کے بہانے ایران پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے اور دوسری طرف شام اور عراق میں ایران کے زیادہ اثر ونفوذ سے امریکا نالاں ہے ۔ امریکا نے حالیہ دنوں میں ایران کے خلاف پروپیگنڈا مہم میں اضافہ کیا ہے ۔ امریکا نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ ایران پر پابندیوں سے متعلق معاملات کا دوبارہ جائزہ لے رہاہے کہ آیا ایران سے پابندیاں ہٹانا امریکا کے مفادمیں ہے یا نہیں ۔ادھر ایران بھی پورے خطے میں مکمل طورپر متحرک نظر آتا ہے ۔ اس کے روس کے ساتھ تعلقات زیادہ قریبی ہوگئے ہیں ایران نے روس کو یہ اجازت دی ہے کہ شام پر ہوائی حملوں کے لیے وہ ایرانی فضائی اڈے اور دیگر سہولیات استعمال کر سکتاہے ۔ایران افغانستان کو تجارتی راہداری چاہ بہار کی بندر گاہ سے فراہم کررہا ہے تاکہ افغانستان کا پاکستان پر اور خصوصاً کراچی پورٹ پر انحصار کم سے کم ہو بلکہ ممکن ہو تو پورے درآمدات چاہ بہار کے ذریعے ہوں ۔پورے خطے میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ امریکا ‘ سعودی عرب اور ان کے تمام اتحادیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے ۔اس تشویش کا اظہار امریکا اور سعودی عرب کر چکے ہیں پاکستان نے سعودی عرب کی زیر سرپرستی اسلامی فوجی اتحاد میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی ہے ۔ ایران بھی پاکستان اور اس کے کردار کابغور جائزہ لے رہا ہے ۔ ایران نے پاکستان کے اس عمل کو کہ وہ اسلامی فوجی اتحاد کا حصہ بن گیاہے ، اچھی نظروں سے نہیں بلکہ مشکوک نظروں سے دیکھا ہے ۔ اب ایران جاننے کی کوشش کرے گا کہ سعودی اتحاد کی جانب سے یمن پر باضابطہ اور متوقع فوجی حملے میں پاکستان کیا کردار ادا کرے گا ۔ پاکستان کے لئے یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا تاہم اس پر امریکی دباؤ بھی برقرار رہے گا کہ ایران مخالف اتحاد میں پاکستان کوئی کردار ادا کرے تاکہ ایران کو مکمل طور پر گھیراجاسکے ۔