|

وقتِ اشاعت :   April 23 – 2017

پارلیمان کے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردئیے گئے ہیں۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن نے یہ مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ وزیراعظم فوری طورپر استعفیٰ دیں ، جے آئی ٹی نا منظور ہے۔ یہ اعلان اپوزیشن کے اراکین نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کیا اور جے آئی ٹی کے قیام کو مسترد کردیا ان کا موقف ہے کہ وزیراعظم پاکستان جو حکومت کے سربراہ ہیں ،سرکاری ملازمین ان کا احتساب نہیں کر سکتے ،ماتحت سرکاری ملازمین سے یہ توقع رکھنا زیادتی ہے۔ اس کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پہلے نواز شریف اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں اور اس کے بعد جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں ۔ وزیراعظم اور حکومت کا سربراہ رہتے ہو ئے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے ۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامہ ہوتا رہا ۔جوابی طورپر حکمران اتحاد کے اراکین اسمبلی نے بھی خوب شور مچایا، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دی گئیں ۔اس کے بعد اپوزیشن اراکین نے اسپیکر کا گھیراؤ کیا اور اس کے سامنے نعرے بازی کی اور ’’گونواز گو‘‘ کے نعرے لگائے ۔ کم و بیش یہی صورت حال سینٹ میں بھی رہی وہاں بھی اراکین نے شور مچایا ’’ گو نواز گو ‘‘ کے نعرے لگائے اور جے آئی ٹی کو مسترد کردیا اور وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ۔ ایوان سے واک آؤٹ کے بعد دونوں ایوانوں کے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردئیے گئے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے اراکین نے منصوبہ کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہدف تنقید بنایا اور صاف صاف موقف اپنایا کہ جے آئی ٹی نا منظور ہے وزیر اعظم پہلے استعفیٰ دیں اور بعد میں عام شہری کی حیثیت سے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں ’ بہ حیثیت وزیراعظم اورسربراہِ حکومت انصاف کے تقاضے پور ے نہیں ہو نگے اور نہ ہی لوگوں کو انصاف کی توقع ہوگی ۔ یہ موقف اپنانے کے بعد بعض مبصرین کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ اب اپوزیشن کے رہنماء اور جماعتیں اس مسئلے کو سڑکوں پر لے جانا چاہتے ہیں اور اب اس معاملے کو سڑکوں پر ہی حل کیا جائے گا۔ آصف زرداری پہلے دن سے ہی اس مسئلے کو عدالت میں لے جانے کے خلاف تھے بلکہ انہوں نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ اس مسئلے کو عدلیہ کا مسئلہ نہ بنائیں یہ سیاسی مسئلہ ہے اور اس کو سیاسی طورپر حل کیاجائے ۔زرداری صاحب کی رائے صحیح ثابت ہوئی ۔ پانامہ کیس کا فیصلہ آنے تک زرداری صاحب ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے کبھی بھی نواز شریف اور اس کی پارٹی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا، کیوں نہیں دیا زرداری صاحب نے اس کی وجہ آج تک عوام کو نہیں بتائی۔ اپوزیشن کے موقف سے معلوم ہوتا ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں احتجاج کی سیاست کریں گی اوروہ پوری قوت کے ساتھ انتظامی مشینری کو مفلوج کرنے کی حد تک جا سکتے ہیں تاکہ وزیراعظم استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجائیں ۔شاید اس کے لئے تین پارٹیاں کافی ہیں پیپلزپارٹی ‘ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی۔ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کو حکومتیں گرانے کا تجربہ حاصل ہے جبکہ تحریک انصاف ایک نئی پارٹی ہے اس کو اتنی مہارت اور تجربہ حاصل نہیں ہے۔ ساتھ ہی اس کا بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اقتدار کے رسیا اور بادشاہی طرز حکومت کے شوقین اپنی مرضی سے کبھی استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ان سے استعفیٰ عوامی دباؤ کے تحت لیا جا سکتا ہے اور اس کا انحصار عوام پرہے کہ وہ نواز شریف کے خلاف کس شدت کی احتجاج کرینگے۔