سابق مشیر خزانہ سردار اسلم بزنجو نے عہدے سے استعفیٰ کی وجوہات بیان کیں اور الزام لگایا کہ بہ حیثیت وزیر بعض معاملات میں ان سے مشورہ نہیں کیا گیا بلکہ جان بوجھ کر ان کو نظر انداز کیا گیا ۔ان کا کہنا ہے کہ محکمہ خزانہ میں بھی منصوبہ بندی اور ترقیات کی حکمرانی ہے ۔ انہوں نے یہ سنگین الزام لگایا کہ منصوبہ بندی اور ترقیات کے انچارجوزیر نے اپنے حلقہ انتخاب کے لیے آٹھ ارب روپے ریلیز کرائے اور وہ اس رقم کو اپنے حلقہ انتخاب میں رواں سال خرچ کرے گا جبکہ ملک کا نیا بجٹ آئندہ چند ہفتوں میں آرہا ہے ۔ اتنے کم وقت میں آٹھ ارب روپے کیسے خرچ ہوں گے وہ بھی بلوچستان کے دورافتادہ دیہی علاقے میں ۔ سیکرٹری خزانہ سے متعلق انہوں نے کوئی الزام نہیں لگایا لیکن تین دیگر اعلیٰ ترین محکمہ خزانہ کے افسران کے خلاف الزامات لگائے ۔ خالد لانگو اور مشتاق رئیسانی کی گرفتاری کے بعد توقع تھی کہ محکمہ خزانہ کی کارکردگی میں زیادہ بہتری آئے گی اور وسائل زیادہ بہتر اندازمیں استعمال میں لائے جائیں گے اوربعض جعلی اسکیموں پر وسائل صرف نہیں ہوں گے لیکن لگتا ہے کہ کوئی نہیں سدھرا اور کچھ بھی نہیں بدلا ۔ واضح رہے کہ صوبے کے تمام با شعور لوگ دو محکموں ‘ خزانہ اور منصوبہ بندی اور ترقیات پر خصوصی نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔ گزشتہ مالی سال میں بھی صوبائی اسمبلی کے صرف ایک حلقے میں ایک ارب ،اسی کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں اس بات کا صرف اشارہ دیا گیا کہ ایک بڑی اضافی رقم جاری منصوبوں پر خرچ کی جا سکتی ہے ۔خبر میں نہ منصوبوں کا ذکر تھا نہ بڑی رقم کی تفصیلات بتائی گئیں تھیں ’ سابق مشیر خزانہ نے شاید اسی رقم کا ذکر کیا ہے جو آٹھ ارب بتائی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے کہ یہ رقم ہڑپ کرلی جائے اس کی پیش بندی کی جائے کہ یہ رقم خرد برد نہ ہو ۔ یہ حکومت اور خصوصاً وزیراعلیٰ کی ساکھ کا مسئلہ ہے کہ اس کے دور حکومت میں کوئی بڑا اسکینڈل سامنے نہ آئے اور عوام کا اعتماد بدستور قائم رہے ۔ اچھی حکمرانی کی ساکھ ہر حال میں بر قرار رہنی چائیے اتحادیوں کو زیادہ آزادی نہیں دینی چائیے ، بلکہ ان کو گرفت میں رکھنا چائیے ۔ سیاسی بلیک میلنگ کا شدت کے ساتھ مقابلہ کیاجائے ۔