|

وقتِ اشاعت :   April 27 – 2017

گڈانی : سالانہ 12بلین کا وفاقی حکومت کو ریونیو دینے والی انڈسٹری پانی کی سہولیا ت سے محروم ، شپ بریکنگ انڈسٹری میں کام کرنے والے محنت کش پانی خریدنے پر مجبور،چیف سیکریٹری بلوچستان سے معاملے کی انکوائری کا مطالبہ تفصیلات کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت کو سالانہ بارہ ارب روپے کا ٹیکس ریونیو دینے والی شپ بریکنگ انڈسٹری جہاں ملکی معیشت کی بہتری اور ملک میں اسٹیل سازی کی صنعت کے فروغ میں ملک گیر شہرت کی حامل صنعت ہے اس صنعت نے گذشتہ چالیس سالوں کے دوران 200ارب روپے کا ریونیو وفاقی حکومت کو دیا ہے لیکن شپ بریکنگ انڈسٹری سے وابستہ محنت کشوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی ہردور حکومت میں سوالیہ نشان بنی رہی ہے گزشتہ سال یکم نومبر 2016کو گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں ایک پلاٹ پر ناکارہ بحری جہاز کی کٹائی کے دوران آتشزدگی کے نتیجے میں درجنوں محنت کشوں کے زخمی وجان بحق ہونے کی خبرین ملکی میڈیا کی زینت بننے کے بعد وفاقی اور حکومت کو گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹری کے حوالے سے محنت کشوں کی سیفٹی اور ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کا خیال آیا وہیں ارباب اختیا ر کی جانب سے شپ بریکنگ انڈسٹری کو گرین یارڈ میں تبدیل کرنے اور محنت کشوں کی سیفٹی کیساتھ اس صنعت کی بہتری کیلئے شپ بریکروں کی مشاورت سے اقدامات اٹھانے سے متعلق فیصلے کئے گئے اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی جانب سے گڈانی میں محنت کشوں کیلئے ہسپتال اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے چےئرمین بی ڈی اے ڈاکٹرشعیب گولہ سے فیزیبلٹی رپورٹ بھی طلب کی گئی تاحال یہ منصوبہ فنڈز کی فراہمی کیلئے ارباب اختیار کی توجہ کا مستحق ہے آذادی سروے رپورٹ کے مطابق گڈانی شپ بریکنگ یارڈ جو کہ 132پلاٹوں پر مشتمل ہے شپ بریکنگ انڈسٹری سے بیس ہزار سے زائد محنت کشوں کا روزگار وابستہ ہے گڈانی کے محنت کشوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دوسال سے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی جانب سے گڈانی شہر سے شپ یارڈ کی جانب جانیوالی پانی کی پائپ لائنوں کے وال بلاجواز طورپربند کردیے گئے ہیں اور پانی کی کمی اور پائپ لائنوں کے ناکارہ ہونے کا بہانہ بناکر محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے افسران جو افسر شاہی سوچ رکھتے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ شدید گرمی میں گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سے ملحقہ گوٹھوں کی خواتین اور بچے پانی کی تلاش میں روازنہ سرگرداں رہتے ہیں لیکن نہ توکسی عوامی نمائندگی کے دعویدار کو یہ فرصت ملتی ہے کہ وہ گڈانی کے محنت کشوں کے حالت زار پر غور کریں ، اور نہ ہی لسبیلہ کی انتظامی افسران پانی کے ایشو کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر آتے ہیں گڈانی میں واقع میاں منشاء کی فیکٹری ڈی جی خان سیمنٹ فیکٹری کے لئے پانی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے لسبیلہ کینال سے الگ پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ تو تیار کرلیا گیا ہے لیکن ہائے رے گڈانی کے محنت کش جو اپنی خون پسینے کی کمائی سے ملکی معیشت کی ترقی میں بنیادی کردا راداکرنے کے باوجود اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں گڈانی شپ بریکرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ پانی فراہمی کیلئے ہرمہینے ہر پلاٹ سے دوہزار روپے ٹیکس وصول کرتی تھی جس سے محکمے کو بھی ریونیو ملتا تھا لیکن چونکہ افسران کا مفاد اس میں نہیں تھا گزشتہ دوسال سے پانی کی فراہمی گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کو بند کردی گئی ہے چیف سیکریٹری بلوچستان کے حالیہ دورہ گڈانی کے موقع پر یہ فریادبھی گئی کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ اور ملحقہ گوٹھوں کو پانی فراہمی کیلئے پبلک انجینئرنگ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے لیکن اس سلسلے میں تاحال کوئی اقدام نہیں کیا گیا ، واضح رہے کہ چیف سیکریٹری کے دورہ گڈانی کے موقع پر میڈیا کی جانب سے نشاندہی کے بعد چیف سیکریٹری شعیب میر نے لسبیلہ کینال سے روزانہ لاکھوں لیٹر پانی ٹینکر مافیا کی ملی بھگت سے چوری کا نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر سے رپورٹ طلب کی گئی تھی اور ڈپٹی کمشنر لسبیلہ کی جانب سے ٹینکر کے ذریعے پانی حب شہر سے باہر لیجانے پر دفعہ 144نافذ اور پانی چوری کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کے جاری کئے گئے احکامات بھی ردی کی نظر ہوگئے ہیں باوثوق ذرائع کے مطابق ٹینکر مافیا کو صوبائی حکومت کے ایک اہم سیاسی شخصیت کی سرپرستی حاصل ہے اور یومیہ پانچ لاکھ لیٹر پانی چوری کرکے کراچی فروخت کیا جاتا ہے لیکن گڈانی کے محنت کشوں کے گھروں میں لگے پانی کے نلکے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں لسبیلہ کے عوامی حلقوں اور گڈانی کے محنت کشوں نے چیف سیکریٹری بلوچستان سے اپیل کی ہے کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ اور اس سے ملحقہ گوٹھوں میں پانی کی فراہمی میں تعطل پید اکرنیوالوں کے خلاف انکوائری کے احکامات جاری کریں ۔