کوئٹہ : بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں آپریشنوں میں نہایت تیزی لائی گئی ہے۔ برسوں سے جاری آپریشن میں ہر نئی حکومت کے ساتھ شدت لائی گئی ہے۔ اس صدی کے شروع میں حکومت نے بلوچستان میں آپریشن کا آغاز کیا تو نام نہاد جمہوری اور سیاسی جماعتوں نے اپوزیشن میں رہ کر مظالم کے خلاف جذباتی تقاریر کرکے بلوچ قوم کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر اقتدار میں آکر جمہوری قوتوں کے مظالم نے فوج کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آصف علی زرداری نے معافی کا لفظ استعمال کرکے مسخ شدہ لاشوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ دوسری طرف معافی بلوچ قوم کی تذلیل تھی۔ کیونکہ ظلم بلوچ قوم پر ہورہا ہے، اب بلوچ پر منحصر ہے کہ وہ صوبائی ووفاقی حکمرانوں کو معاف کرے یا نہیں۔ نواز شریف کا انداز بھی مختلف نہ رہا۔ عالمی اداروں میں جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کے دعویداروں نے اظہار رائے پر ایسی قدغن لگائے کہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ سرکاری اسکول اور کالجوں کو کیمپوں میں تبدیل کیا کیا گیا اور نجی اسکولوں پر ریاستی ایماء اسلامی شدت پسندوں کے ذریعے حملے کروائے گئے یا اساتذہ کو اغوا کرکے اسکولوں کو تالا لگایا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچی میں شاعری اور گانا کے ذریعے اظہار پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ آج تمپ کے علاقے کونشقلات میں بلوچی زبان کے معروف موسیقار اور گلوکار اُستاد منہاج مختار کے گھر پر دوسری دفعہ حملہ کرکے جلایا گیا۔ اس غیر جمہوری اور غیر انسانی فعل کی بھر پور مذمت کرتے ہیں۔ زبان و ثقافت کو زندہ رکھنے میں ایک اہم کردار گائیکی ہے۔ بلوچ ثقافت کو ختم کرنے کیلئے بلوچی زبان کے فنکاروں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مستونگ سے فقیر محمد عاجز اور بسیمہ سے علی جان ثاقب جیسے بلوچی اور براہوئی زبان کے گلوکاروں کو اغوا کرکے قتل کیا جا چکا ہے۔