سرائیکی صوبہ کی تحریک روز بروز زور پکڑتی جارہی ہے زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہورہے ہیں اور دوسرے صوبوں میں بھی اس کی حمایت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ شاید پاکستان پیپلزپارٹی اس بار سرائیکی صوبے کے قیام کو انتخابی نعرہ بنائے گا اور سرائیکستان کی 80قومی اسمبلی کی نشستوں کی بڑی اکثریت پر قبضہ کرلے گا اور ن لیگ کی شکست یقینی ہوجائے گی۔ بلوچ ‘ سندھی ‘ پختون ‘ گلگتی ‘ بلتسانی سب سرائیکی صوبے کی حمایت کررہے ہیں اور پنجابی حکمرانوں پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کیونکہ برطانوی نو آباد کاروں کے غلام نوکر شاہی نے پاکستانی وفاق کے خدو خال بدل ڈالے ملکی قائدین کی حکومت کو برطرف کرکے جنرل ایوب خان کی حمایت سے نوکر شاہی کا راج قائم کیا گیااور مطلق الحنان حکمرانی کی داغ بیل ڈالی گئی جو آج دن تک قائم ودائم ہے ۔وفاق اور وفاقیت کی روح کو اصل معنوں میں دفن کردیا گیا بلکہ مقتدرہ وفاق کے نام سے ہی نفرت کرتی ہے جو پاکستان کی سالمیت کے لئے نیک شگون نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی ریاست میں جلد سے جلد اور دوررس اصلاحات کیے جائیں ان میں سرائیکی اور گلگت بلتستان کو صوبوں کا درجہ دینے کے علاوہ باقی صوبوں کی لسانی ‘ ثقافتی اور نسلی بنیادوں پردوبارہ حد بندی کی جائے ۔ آج کے نظام میں پختونوں کو سینٹ میں تین خطوں سے نمائندگی حاصل ہے ، ایک کے پی کے ‘ دوسرا فاٹا اور تیسرا بلوچستان ۔ پاکستانی وفاق میں پختونوں کی بھی صرف ایک نمائندگی ہونی چائیے جیسا کہ بلوچ ‘ سندھی اور پنجابیوں کاہے ۔ ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ افغانستان کے تمام مفتوحہ علاقوں کو فوری طورپر فاٹا کا حصہ بنایاجائے ، ان کا انتظامی طورپر بلوچستان کا حصہ رہنا غیر فطری اور غیر منطقی ہے ۔ جب فاٹا کو کے پی کا حصہ بنانے کا عمل شروع کیا جائے تو بلوچستان سے ملحقہ بلوچ علاقوں کو جو تاریخی طورپر بلوچستان کا حصہ رہے ہیں ان کو دوبارہ بلوچستان میں شامل کیاجائے ۔ اسی طرح کے پی کے اور پنجاب کے درمیان پوٹھوہار کو یا تو الگ صوبہ بنایاجائے یا اس کو پنجاب میں شامل کیاجائے تاکہ پشتو اور ہندکو کا تنازعہ بھی ختم ہوجائے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں بلوچوں کو Margnalizedکردیا گیا ہے اور غیر سیاسی لوگوں کو ان پر مسلط کردیا گیا ہے جن کو سیاست کی سوجھ بوجھ ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ بلوچ روایات کے پاسدار ہیں ۔ اس لیے صوبوں کی فوری طورپر از سر نو حد بندی ہونی چائیے ۔ ہر صورت میں افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کوانتظامی وجوہات کی بناء پر بلوچ قومی صوبہ کا حصہ نہیں ہونا چائیے ہم پہلے ہی یہ تجویز دے چکے ہیں ان علاقوں پر مشتمل خطے کو وزیرستان کے ساتھ ملایا جائے یا ان کی ایک الگ قبائلی ایجنسی قائم کی جائے کیونکہ ان کے بعض رہنماء وسیع تر پختون صوبے کے مخالف ہیں اور فاٹا کے نظام کے حامی ہیں لہذا ان کو پسندیدہ فاٹا میں شامل کیا جائے جس سے بلوچستان کے بعض دیر ینہ مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ صوبوں کی از سر نو حد بندی کے بعد تمام صوبوں کو مکمل صوبائی خودمختاری دی جائے جو قیام پاکستان کے اصل روح کے مطابق ہو۔