حکومت کا یہ اقدام قابل ستائش ہے کہ اس نے افغانستان کے ساتھ معمول کے تعلقات کی بحالی کیلئے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں حال ہی میں دو وفود نے کابل کا دورہ کیا ایک فوجی وفد جس کی سربراہی لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر نے کی ، اس وفد نے وزیر دفاع اور افغانی فوجی کمانڈروں سے ملاقات کی ۔پاکستان کا ابتدا سے یہ موقف رہا ہے کہ خطے میں دیرپا امن کے لئے دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون ضروری ہے تاکہ ا س خطے سے طالبان شدت پسندوں اور داعش کے جنگجوؤں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے دوران افغان حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ فوجی کاروائی کے دوران افغان سرحد کو مکمل طور پر سیل کر دیا جائے تاکہ دہشت گرد سرحد پار نہ کر سکیں اور ان کا گھیراؤ کرکے مکمل صفایا کیا جاسکے لیکن افغان حکومت نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا اورطالبان شدت پسندوں کو راہ فرار کی سہولت دی اور نتیجتاً آج افغانستان انہی طالبان جنگجوؤں سے نمبردآزما ہے جبکہ پاکستان کے خلاف الزام لگا رہا ہے کہ پاکستانی جنگجو افغان سیکیورٹی افواج سے لڑ رہے ہیں ۔یہ افغان حکومت کی غلط پالیسی تھی کہ اس نے طالبان جنگجوؤں کو راہ فرا ر کی تمام سہولیات فراہم کیں جس سے افغانستان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ،اب رونادھونا کس بات کا۔ افغان حکومت کی غلطی کا کوئی حل پاکستان کے پاس نہیں، افغان حکومت خود ان مشکلات کا حل تلاش کرے۔ پاکستان جو کچھ ممکن ہو سکا وہ ضرور کرے گا۔ بنیادی طور پر یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے لہذا افغانستان اپنے مسائل کا خود حل تلاش کرے پاکستان پر الزامات نہ لگائے۔ دوسرا وفد سیاسی رہنماؤں پر مشتمل تھا جس میں وفاقی پارلیمان کے اراکین تھے۔ ان کی قیادت قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے کی ۔ وفد میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے اراکین شامل تھے یہ وفد وسیع ترقومی اتحاد کی نمائندگی کررہا تھا اس نے موجودہ افغان صدر اور سابق صدر کے علاوہ دیگر افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں کی اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر تبادلہ خیال کیا جو حالیہ دنوں میں سردمہری کا شکار ہیں ۔پاکستان کی جانب سے یہ کوشش کی گئی کہ سرد مہری کا خاتمہ کیا جائے اور تعلقات میں دوبارہ گرم جوشی پیدا کیا جائے کیونکہ افغانستان پاکستان کا برادر ہمسایہ ملک ہے اور اس کی 80 فیصد تجارت کا انحصار پاکستان اور پاکستانی اجناس اور خوردنی اشیاء پرہے۔ گزشتہ دنوں حکومت پاکستان نے سرحد بند کی تو افغان عوام کو شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ، اس دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارت بند ہونے سے افغانستان میں اشیائے خورونوش کی کمی ہوئی۔وفود نے سیاسی تنازعات اور مسائل کو زیر بحث لایا، پاکستان ڈیورینڈ لائن کو متنازعہ نہیں سمجھتااور اسی کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتاہے اور دنیا بھی اسی کوسرحد مانتا ہے جب کہ افغانستان اس کو متنازعہ سمجھتا ہے ،اس کا موقف یہ ہے کہ اس وقت کے سپریم پاور نے کمزور افغانستان پر یہ معائدہ یکطرفہ طور پر مسلط کردیا تھا اس لئے افغانی حکومتیں اس کو تسلیم نہیں کرتیں۔ جو سب سے اہم معاملہ ہے وہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہے، اکثر دہشت گردتنظیموں نے افغانستان میں پناہ گاہیں قائم کی ہوئی ہیں جن کے خلاف افغان حکومت کاروائی نہیں کرتی اور وہ موقع پاتے ہی پاکستان پر ‘پاکستان کی سرحدی چوکیوں اور آبادیوں پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں ۔پاکستان کو یہ بھی شکایت ہے کہ افغانستان نے بھارت کو اجازت دی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں کیلئے استعمال کرے ۔یہ دونوں معاملات ابھی تک زیر بحث ہیں مگر جو سب سے زیادہ تشویشناک بات ہے وہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اگلے دو ہفتوں میں اپنی افغان پالیسی کا اعلان کرنے والے ہیں۔ اس حوالے سے واضح اشارے ہیں کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ طالبان اور داعش کے ٹھکانوں پر حملے کریں گے خصوصاً سرحدی علاقوں میں جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں گے۔ امریکی میرین نے پہلے ہی ہلمند میں مورچے سنبھال لئے ہیں جہاں پر طالبان نے ایک اہم شہر پر قبضہ کر رکھا ہے