|

وقتِ اشاعت :   May 7 – 2017

حال ہی میں حکومت پاکستان نے افغانستان کے ساتھ معمول کے تعلقات کی بحالی کیلئے بہت سے اقدامات اٹھائے، ان میں فوجی اور پارلیمانی وفود کے کابل کے دورے شامل تھے یہاں تک کہ افغان صدرکو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی گئی جس کو انہوں نے بغیر وجہ بتائے مسترد کردیا۔ چند روزقبل افغانستان نے ایک سرحدی گاؤں کے حوالے سے مردم شماری پر تنازعہ کھڑا کر دیاکہ کلی لقمان اور کلی جہانگیر افغانستان کے علاقے ہیں جب مردم شماری کیلئے اہلکار وہاں گئے تو ان کو منع کیا گیا۔ رات3بجے کے لگ بھگ افغان افواج نے اندھا دھند فائرنگ اور شیلنگ شروع کردی جس میں ایف سی کے دو اہلکاروں سمیت 12افراد ہلاک ہوئے اس میں بچے بھی شامل تھے ، 40 سے زائد زخمی ہوئے۔ افغان افواج کی جانب سے گھنٹوں تک فائرنگ اور شیلنگ کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے پاکستانی حکام نے بین الاقوامی سرحد کے قریب آمدرفت پر پابندی لگا دی۔ ٹرکوں اور گاڑیوں کو سرحد سے دور روک لیا گیا اور پاک افغان سرحد جو باب دوستی کے نام سے مشہور ہے، کوغیر معینہ مدت کیلئے بند کردیا گیا ،دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بھی بند کردی گئی۔ چمن سرحد سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ گزرتے ہیں۔ پھلوں کے اس موسم میں افغانستان سے پھلوں کی درآمد بند ہوجائے گی اور اس طرح پاکستان سے کھانے پینے کی اشیاء بھی فغانستان برآمد نہیں ہو سکیں گی۔ اس فائرنگ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تلخی بڑھ گئی ہے اور تناؤ میں اضافہ ہوگیا ہے بعض پاکستانی مبصرین کو یہ یقین ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کو استعمال کررہا ہے بلکہ اس الزام کو وزرات خارجہ کے ترجمان نے ایک بار پھر دہرایا کہ افغانستان نے بھارت کی شہہ پر پاکستان کے خلاف یہ فوجی کاروارئی کی ہے جس کا مقصد پاکستان کے گرد گھیرا زیادہ تنگ کرنا ہے اور پاکستان کے دونوں اطراف سرحدوں پر تناؤ میں اضافہ کرنا ہے ۔معلوم یہ ہوتا ہے کہ افغانستان نے پاکستان مخالف کیمپ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی ہے جلد یا بدیر افغانستان ایران کے خلاف بھی کاروائیاں کرنے کا ارادہ ظاہر کررہا ہے، اس کا واحد مقصد خطے میں بدامنی پھیلا نا ہے۔ افغانستان پہلے پاکستان کے خلاف الزامات لگاتا آرہا ہے اور آج کل دبے الفاظ میں روس اور ایران کے خلاف بھی الزامات لگا رہا ہے کہ یہ دونوں ممالک طالبان کو اسلحہ اور گولہ بارود کے علاوہ دوسری امداد دے رہے ہیں اس لئے امریکہ اور بھارت افغانستان کی حمایت میں بعض اقدامات اٹھا رہے ہیں ۔ امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں مزیدفوجی افغانستان روانہ کررہا ہے تاکہ طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت کو روکا جا سکے آئندہ چند روز میں صدر ٹرمپ افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان کرنے والے ہیں جس میں امریکی فضائیہ کا زیادہ بڑا کردار ہوگا، امریکہ شاید طالبان کے ٹھکانوں کو بڑے پیمانہ پر نشانہ بنائے گا جس سے خطرہ یہ ہے کہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ ظاہر ہے اس بمباری میں پاکستان کے علاقے بھی زد میں آسکتے ہیں اس کے پیش نظر حکومت کو مزید احتیاطی تدابیر اختیار کرنے ہونگے بلکہ اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ افغان غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق پالیسی پر دوبارہ غور کیا جائے اور ان لاکھوں افغانوں کو جلد سے جلد واپس بھیجنیکے انتظامات کئے جائیں ۔سیکیورٹی ذرائع نے پہلے ہی لاکھوں کی تعداد میں افغانستان کے غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک خطرہ قرار دیا تھا شاید آج بھی یہی موقف قائم ہے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کے جان ومال محفوظ بنائے ۔ افغان غیر قانونی تارکین وطن کو فوراً کیمپوں میں منتقل کیا جائے اگر ان کی فوری طور پر واپسی ممکن نہ ہو۔ ان کو شہری اور گنجان آبادی والے علاقوں سے نکالا جائے ایسی صورت میں شہر اور شہری زیادہ محفوظ ہوں گے۔