|

وقتِ اشاعت :   May 10 – 2017

بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جس کے اہم ترین مسائل کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جارہا ہے اور ان کے حل کی کوئی کوششیں نظر نہیں آتیں ۔وفاقی حکومت اور اس کی نوکر شاہی کے ساتھ ساتھ صوبے کے منتخب نمائندے بھی اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں ان نمائندوں سے عوام الناس کی شکایات جائز ہیں کہ انہوں نے اسمبلیوں اور پارلیمان میں بلوچستان کے اہم ترین مسائل کو اجاگر نہیں کیا اور زیادہ ترجیح اپنے ذاتی اور مالی مفادات کو دی۔ گزشتہ 70سالوں میں بلوچستان میں صرف دو ڈیم تعمیر ہوئے ان میں ایک کا تعلق کراچی کیلئے پانی کی سپلائی سے ہے جو حب میں تعمیر کی گئی اور دوسرا میرانی ڈیم ہے۔ بلوچستان تمام صوبوں سے کہیں بڑا بلکہ ایک خطہ ہے جو پاکستان کا نصف ہے اور اس میں 70 سالوں میں صرف دو ہی ڈیم تعمیر ہوئے۔ بجلی کے حوالے سے بات کی جائے تو بلوچستان میں اس کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے مگر بجلی کی منصفانہ تقسیم پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ موجودہ ٹرانسمیشن لائن صرف400 میگا واٹ بجلی کی ترسیل کی قوت رکھتی ہے 400میگا واٹ بجلی سے اتنے وسیع اور عریض خطے میں کیا معاشی ترقی ہوسکتی ہے بلوچستان کی حکومت اور اس کے عوامی نمائندے یہ معاملات وفاق کے ساتھ اٹھائیں اور کوشش کریں کہ پاور ٹرانسمیشن لائن کو بلوچستان کے طول وعرض میں پہنچائیں تاکہ بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے معاشی ترقی کا عمل متاثر نہ ہو ۔وفاقی حکومت کو اس کی تفصیل کے ساتھ منصوبہ بندی کرنی چاہئے کہ صوبے کے وسائل سے مالا مال علاقوں میں جہاں ترقی کے مواقع موجودہیں وہاں بجلی کی فراوانی ہو۔ پاور ٹرانسمیشن لائن کو دور دراز علاقوں تک لے جایا جائے خصوصاً بڑے بڑے آبادی والے علاقوں تربت ‘ تمپ‘ مند، گوادر ‘ اورماڑہ ‘پسنی ‘ جیونی ‘ خاران ‘ پنجگور‘ دالبندین ‘ نوکنڈی ‘ کوہلو ‘ بارکھان‘ڈیرہ بگٹی اور دوسرے علاقوں کو بجلی پہنچائی جائے۔ ان میں سے اکثر علاقے مستقل قریب میں معاشی سرگرمیوں کے سب مرکز بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہاں لاکھوں لوگ رزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ بلوچستان میں بجلی کی پیداوار اس کی استعمال یا مقامی ضرورت سے زیادہ2400 میگا واٹ ہے اور اس کو بجلی صرف400 سے 500 میگا واٹ مل رہی ہے۔ بلوچستان کی بجلی سے سندھ اور پنجاب کی ضروریات کو پورا کیا جارہا ہے ابھی دو بڑے پاور پلانٹ زیر تعمیر ہیں ایک گوادر میں جو 300میگا واٹ بجلی پیدا کرے گی جو گوادر کی بندر گاہ اوراس کے ملحقہ صنعتی اور تجارتی علاقوں کی ضروریات پوری کرنے کے بعد قریبی شہروں اور دیہاتوں کو بجلی فراہم کر ے گی جبکہ دوسرا پاور پلانٹ حبکولگا رہا ہے ۔ یہ نیا پلانٹ چین کے تعاون اور سرمایہ کاری سے 1320 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گی اگر یہ تمام بجلی بلوچستان کو مل جائے تو آئندہ 20سالوں تک بلوچستان کو بجلی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس لئے کیسکو کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ پورے بلوچستان میں پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کرے اوروفاقی حکومت اس کے لیے فنڈز فراہم کرے ۔کیسکو صوبائی حکومت کی نگرانی میں یہ پاور ٹرانسمیشن لائن کم سے کم مدت میں تعمیر کرے تاکہ بلوچستان میں ترقی کا عمل تیز تر ہو ،بجلی کی فراوانی معاشی ترقی کیلئے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر اور استعمال کیلئے ضروری ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جو علاقہ گزشتہ 16سالوں سے مسلسل سونا اگل رہا ہے وہ بھی بجلی سے محروم ہے حالانکہ علاقے کی ترقی کیلئے ایران سے زیادہ سستے داموں بجلی خریدی جاسکتی تھی ان 20 سالوں میں نمعلوم وجوہات کی بناء پر ایران سے زیادہ سستی بجلی نہیں خریدی گئی ، اس طرح سے بلوچستان کے معاشی ترقی کے عمل کو روک دیا گیا ، ایساکیوں کیا گیا ؟ بلوچستان کے عوام کا کیا قصور ہے کہ ان کے خطے سے معدنیات نکالی تو گئیں لیکن یہاں کے عوام کے لیے نہ اسکیمیں بنائی گئیں اور نہ ان پر عمل کیا گیا ، ساراسونا لے گئے جبکہ عوام کو ویسے ہی بدحال رکھا گیا۔