حالیہ دنوں میں حالات یہ بات ثابت کررہی ہیں کہ پاکستان کے تعلقات افغانستان اور بھارت سے خراب تر ہوگئے ہیں۔ بھارت آئے دن لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کرتا ہے اور دوسری افغانستان نے بھی پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ اپنایا ہوا ہے ۔ چمن کا واقعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے کہ افغان سرحدی محافظین نے بغیر کسی اشتعال کے پاکستان کے دو قصبوں پر فائرنگ اور گولہ باری کی جس میں11افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہوئے۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سرحد بھی غیر معینہ مدت کے لئے بند کردی جس کے شدید ترین اثرات افغانستان کی کمزور معیشت پر پڑیں گے ۔ بہر حال افغانستان کا حملہ حیران کن اور اشتعال انگیز تھا کیونکہ رات کی تاریکی میں شہری آبادی پر گولہ باری کی گئی۔ اس سے قبل ایرانی سرحد کے قریب ایک اور واقعہ پیش آیا جس میں نا معلوم مسلح افراد نے ایرانی سرحدی محافظین پر اچانک حملہ کیا جس میں 11سرحدی گارڈ ہلاک ہوگئے ۔یہ واقعہ ایران کی سرزمین پر پاکستانی سرزمین سے چند کلو میٹرز کے فاصلے پر پیش آیا ۔ ایران نے الزام لگایا کہ حملہ آور پاکستان سے ایران میں داخل ہوئے، اور واردات کے بعددوبارہ پاکستان کی جانب فرار ہوگئے ۔ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ لوگ کون تھے، کہاں سے آئے ، انہوں نے ایرانی مسلح افواج پر کیوں حملہ کیا؟ اس سے متعلق کوئی معلومات نہیں ۔بعد میں ان دہشت گردوں نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے ایرانی افواج پر حملے کا دعویٰ کیا۔ ماضی میں بھی کئی ایسے واقعات ایران میں رونما ہوئے جن کی ذمہ داری مذہبی شدت پسند تنظیموں نے قبول کی ۔ بڑی کوششوں کے بعد ایرانی مسلح افواج نے ایک جہاز کو ایرانی حدود میں اتار لیا جس میں مالک ریکی گلف سے قازقستان جارہے تھے ۔ ان کو اور ان کے ساتھی کو گرفتار کر لیا گیا بعد میں ان کو ایرانی حکومت نے پھانسی دے دی۔ مالک ریکی ایک مذہبی شدت پسند تنظیم کے سربراہ تھے اور اکثر ایران کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہے ۔ اسی دوران اکثرو بیشتر ایرانی افواج ‘ خصوصاً سرحدی محافظین پاکستانی علاقہ پر گولہ باری کرتے رہے او رعوام الناس میں خوف و ہراس پیدا کرتے رہے ۔ شاید حکومت پاکستان نے کبھی بھی ایرانی حکومت سے اس سلسلے میں باضابطہ احتجاج نہیں کیا اورنہ ہی کبھی ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا اور اس کو احتجاجی مراسلہ تھما یا ۔ لیکن آج کی صورت حال مختلف ہے ایران کا رویہ تلخ معلوم ہوتا ہے ، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی زیر سرپرستی اسلامی فوج میں شامل ہوگیا ہے اور محدود تعداد میں کچھ فوجی بھی سعودی عرب روانہ کیے ہیں اس پر ایران چراغ پا ہے۔ پاکستان ‘ افغانستان ‘ گلف کے عرب ممالک کی وجہ سے ایران چاروں اطراف سے گھیرے میں ہے ۔افغانستان میں ناٹو اور امریکا مزید فوجی روانہ کررہے ہیں یہ سب ایران کے لئے شدید خطرے کی گھنٹی ہے ۔ ایران یہ توقع کررہا تھا کہ ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان اس اسلامی فوج کی سربراہی قبول نہیں کرے گا اور نہ ہی اس میں شرکت کرے گا ، معاملات کی خرابی کی اصل وجہ یہی ہے جس سے پورے خطے پر کشیدگی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ دوسری طرف ایران اور امریکا کے مابین الفاظ کی جنگ یا میڈیا وار چل رہی ہے ۔ آئے دن امریکا اور ایران ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں امریکا کی بڑی تعداد میں جنگی جہاز اس خطے میں گشت کررہے ہیں کوئی معمولی واقعہ کسی بڑے تصادم کا باعث بن سکتی ہے تاہم یہ پاکستان اور ایران کے عظیم تر مفاد میں ہے کہ وہ اپنے تنازعات کا پر امن حل نکالیں اور سرحدوں پر امن برقرار رکھیں ۔