سینٹ قائمہ کمیٹی کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے کہ ’’ مقامی ‘‘ زبانوں کو صوبوں کی سرکاری زبانوں کا سرکاری طورپر درجہ دے دیا گیا ہے۔ آج سے بلوچستان کی سرکاری اور تسلیم شدہ زبان بلوچی ہوگی ، باقی تمام مقامی زبانیں اقلیتی اور ثقافتی اقلیتوں کی زبانیں ہوں گی ۔ اسی طرح سندھ میں سندھی ‘ پنجاب میں پنجابی اور کے پی کے میں پشتو ہوگی، اگر مسلم لیگ اپنے وعدہ کے مطابق سرائیکستان کو صوبے کا درجہ گزشتہ چار سالوں کے اندر دے دیتی تو آج سرائیکی بھی سرائیکستان کی صوبائی سرکاری زبان ہوتی ۔ براہوئی زبان ثقافتی اقلیت کی نہیں بلکہ بلوچوں کی اپنی زبان ہے اور بلوچ بلوچی کے علاوہ براہوئی بھی بولتے ہیں یہ ایک قوم کی دو زبانیں ہیں ۔ لہذا بلوچی کے ساتھ ساتھ براہوئی زبان کو بھی مساوی حقوق حاصل ہوں گے اور حکومت اس کی ترقی کے لئے برابر کی کوششیں کرے گی ۔ بلوچ واحد قوم ہے جس کی دو زبانیں ہیں ، وسطی بلوچستان میں براہوئی اور بقیہ اس کے اطراف میں بلوچی زبان بولی جاتی ہے۔ بلوچی زبان کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بندر بلوچ ( بندر عباس ) سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک 3000کلو میٹر پر بلوچی بولی جاتی ہے ۔ بہت بڑے خطے کی زبان بلوچی ہے شاید اس کا علاقہ بارہ لاکھ مربع میل سے زیادہ ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایران یا سنکیانگ کے برابر ہے ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ بلوچی کو ستر سال گزرنے کے بعد سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا کہ یہ بلوچستان کی نمائندہ واحد زبان ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلوچ عوام کو دوسری زبانیں بھی اتنی ہی عزیز ہیں جیسا کہ ان کی اپنی زبان ۔ اس لیے بلوچستان کی حکومت پر یہ فرض عائد ہوتی ہے کہ وہ براہوئی ،ہزارگی ( پارسی ) ‘ سندھی ‘ سرائیکی اور پشتو کی ترقی کے لئے اتنا ہی کام کرے۔ سرکاری سطح پر بلوچی کو تسلیم کرنے کے بعد صوبائی حکومت کو یہ عمل شروع کردینا چائیے کہ پہلے اس کو ابتدائی یا پرائمری تعلیم کا ذریعہ بنائیں تاکہ آئندہ بلوچی زبان کالج اور یونیورسٹی میں بھی ذریعہ تعلیم ہو ۔ وزیراعلیٰ خود اس بات کی نگرانی کریں کہ صوبائی محکمہ تعلیم بلوچی زبان میں درسی کتب تیار کرے، اس کے لئے بلوچ دانشوروں اور ادیبوں کو یکجا کیاجائے اور ان کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ ابتدائی تعلیم کے لئے درسی کتب تیار کریں اور ممکن ہو سکے تواگلے تعلیمی سال سے بلوچی زبان میں تعلیم اور تدریس کا عمل شروع کیاجائے ۔ اس کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ بلوچ دشمن عناصر کو ان تمام کلیدی عہدوں سے ہٹادیا جائے اور ان کو دیگر محکموں میں ذمہ داری دی جائے تاکہ بلوچی کی ترقی کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے شروع ہوجائے بلکہ وزارت تعلیم کا قلم دان کسی بلوچ کو سونپ دیاجائے تو زیادہ بہتر ہے اور موجودہ وزیر تعلیم کو زیادہ بہتر محکمہ دیاجائے۔ بہتر یہ ہے کہ وہ فیصلہ جو نواب اکبر بگٹی کی حکومت نے کیا تھا اس پرفوری عمل درآمد شروع کیاجائے اب اس میں کوئی رکاوٹ نہیں بلوچی کو سرکاری طورپر صوبہ بلوچستان کازبان تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ ہم ڈاکٹر مالک سے گزارش کریں گے کہ وہ موجودہ حکومت میں وزارت تعلیم کا قلمدان قبول کریں کیونکہ اس وزارت سے ان کی شان اور قدر میں اضافہ ہوگا کہ انہوں نے قومی جذبے کے تحت وزارت اعلیٰ کے بعد وزیر تعلیم کا عہدہ قبول کیا ۔ یہ ایک موقع ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا مرتبہ رقم کرائیں کیونکہ ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں کچھ زیادہ اچھی روایات نہیں بنیں، اس لئے ہم یہ مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ آئیں اور وزارت تعلیم کا قلمدان سنبھالیں اور اپنے لوگوں کی خدمت کریں بلکہ ہم مستقبل میں آنے والی حکومتوں سے گزارش کریں گے کہ ڈاکٹر مالک کو وزیر تعلیم رکھیں تاوقتیکہ ان سے بہتر کوئی شخص دستیاب نہیں ہوتا ۔ ہمیں امید ہے کہ ڈاکٹر مالک اس مشورہ پر غور کریں گے بلکہ ہم وزیراعلیٰ سے گزارش کریں گے کہ وہ ڈاکٹر مالک پر دباؤ ڈالیں کہ وہ وزارت تعلیم کا قلمدان سنبھال لیں ۔