بہت عرصے بعد ملک میں پارلیمان اور نمائندہ حکومت کی بالادستی کو تسلیم کرلیا گیا بلکہ اعلانیہ طورپر تسلیم کر لیا گیا جس پر ملک کے اندر بعض حلقے ناخوش اور ناراض نظر آتے ہیں ، اس میں ہمارے بعض سکہ بند صحافی بھی شامل ہیں جو ہر حال میں نمائندہ حکومت کا تختہ الٹتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ایسے میں وہ عناصر اداروں کے درمیان محاذ آرائی کو زیادہ ہوا دے رہے ہیں ۔
ڈان لیکس کا معاملہ ختم ہوگیا اس سین کے تین اہم ترین کردار سیاسی اور انتظامی منظر نامے سے ہٹا دئیے گئے ہیں ایک افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوا تاحال اس سے متعلق معلومات نہیں ہیں تاہم بعض مبصرین کا اندازہ ہے کہ یہ بیک ڈور سفارت کاری کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ خصوصاً اس کا تعلق جندال ‘ بھارتی صنعت کار کے دورہ پاکستان کے بعد سے ہے ۔
حکومت نے اعلان کیا کہ جندال سے ملاقات اور ان سے بات چیت سے متعلق تمام باتیں فوج کے سربراہ کو وزیراعظم نواز شریف نے بتادیں تھیں مگر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیاسی فضا میں مشن کیا تھا ۔تاہم یہ قیاس آرائیاں جاری رہیں گی لیکن نواز شریف سے آرمی چیف کی ملاقات کے بعد سیاسی فضا میں زیادہ تازگی آئی ہے اب اس ماحول کو بر قرار رکھنا چائیے اور ہر قومی ادارے کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چائیے خصوصاً ادارے سیاسی‘ سفارتی اور انتظامی معاملات میں مداخلت نہ کریں تو ماحول زیادہ ساز گار رہے گا اور ملک کے اندر افراتفری کا ماحول پروان نہیں چڑھے گا۔
بنیادی اصول پارلیمان اور نمائندہ حکومت کی معاملات میں بالادستی ہے ، تمام معاملات کو پارلیمان میں لائیں اور ان پر بحث کریں۔ بنیادی شکایات وزیراعظم کی ذات کے علاوہ بعض متکبر اور مغرور وزراء کے رویے سے متعلق ہیں جو اپنے آپ کو پارلیمان کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے بلکہ بعض اہم وزراء وزیراعظم کی پیروی کرتے ہوئے پارلیمان کے اجلاس سے غیر حاضر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کو اپنے خلاف اپوزیشن کی تنقید اورشکایات پر سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بلکہ ایک طاقتور وزیر نے اپنا نائب مقرر کروالیا ہے ،اسکے ذمہ یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ پارلیمان میں سوالات کے جوابات د یں تاکہ متکبر وزیر کی انا کوٹھیس نہ پہنچے۔ پارلیمان کی بالادستی صرف حزب اختلاف اور سرکاری ملازمین پر ہی نہیں ،حکومت ‘ وزیراعظم اس کے وزراء بلکہ حکمران پارٹی اور اس کے اراکین پر بھی لاگو ہوتا ہے مثال کے طورپر وزیراعظم ہر جلسہ عام میں قومی دولت تقسیم کرتے نظر آ تے ہیں حالانکہ آئین اور قانون کی رو سے قومی بجٹ سے باہر ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چائیے۔
حال ہی میں اپنے صنعت کار بھائی بندوں کو وزیراعظم نے سرکاری خزانے سے 180روپے خیرات میں دئیے اتنی بڑی خیرات صنعت کاروں کو بجٹ کے دائرہ کار کے اندر نہیں دی جا سکتی ، پہلے اس کو پارلیمان سے منظور کرواتے پھر 180ارب روپے اپنے دوست صنعت کاروں کو دیتے۔ بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور پاکستان کے رقبے کا نصف ہے ، اس کا انتظامی بجٹ بھی تقریباً اتنا ہی ہے جتنا صنعت کاروں کو دیا گیا۔ یہ کسی ملک کے منتخب وزیراعظم کا نہیں بلکہ کسی بادشاہ کا طرزعمل معلوم ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کریہ کہ اپنے آپ کو پارلیمان اور عوام کے سامنے جوابدہ بھی نہیں سمجھا جاتا۔
دوسری جانب طرہ یہ کہ ان کو شکایات ہیں کہ لوگ ان کو من مانی نہیں کرنے دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ذاتی فیصلے کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یہاں تک کہ کابینہ کا اجلاس بلانا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ آئین اور پارلیمان کی بالادستی کافرض پہلے حکمران جماعت ‘ وزیراعظم اوران کے کابینہ کے اراکین پر عائد ہوتی ہے آئین اور پارلیمان کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے پہلے وزیراعظم خود کو آئین اور پارلیمان کے تابع کریں بعد میں دوسرے لوگوں اور اداروں کو آئین کی پاسداری کی نصیحت کریں ۔
ڈان لیکس کا معاملہ ختم ہوگیا اس سین کے تین اہم ترین کردار سیاسی اور انتظامی منظر نامے سے ہٹا دئیے گئے ہیں ایک افسر کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں ہوا تاحال اس سے متعلق معلومات نہیں ہیں تاہم بعض مبصرین کا اندازہ ہے کہ یہ بیک ڈور سفارت کاری کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ خصوصاً اس کا تعلق جندال ‘ بھارتی صنعت کار کے دورہ پاکستان کے بعد سے ہے ۔
حکومت نے اعلان کیا کہ جندال سے ملاقات اور ان سے بات چیت سے متعلق تمام باتیں فوج کے سربراہ کو وزیراعظم نواز شریف نے بتادیں تھیں مگر یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیاسی فضا میں مشن کیا تھا ۔تاہم یہ قیاس آرائیاں جاری رہیں گی لیکن نواز شریف سے آرمی چیف کی ملاقات کے بعد سیاسی فضا میں زیادہ تازگی آئی ہے اب اس ماحول کو بر قرار رکھنا چائیے اور ہر قومی ادارے کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چائیے خصوصاً ادارے سیاسی‘ سفارتی اور انتظامی معاملات میں مداخلت نہ کریں تو ماحول زیادہ ساز گار رہے گا اور ملک کے اندر افراتفری کا ماحول پروان نہیں چڑھے گا۔
بنیادی اصول پارلیمان اور نمائندہ حکومت کی معاملات میں بالادستی ہے ، تمام معاملات کو پارلیمان میں لائیں اور ان پر بحث کریں۔ بنیادی شکایات وزیراعظم کی ذات کے علاوہ بعض متکبر اور مغرور وزراء کے رویے سے متعلق ہیں جو اپنے آپ کو پارلیمان کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے بلکہ بعض اہم وزراء وزیراعظم کی پیروی کرتے ہوئے پارلیمان کے اجلاس سے غیر حاضر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان کو اپنے خلاف اپوزیشن کی تنقید اورشکایات پر سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بلکہ ایک طاقتور وزیر نے اپنا نائب مقرر کروالیا ہے ،اسکے ذمہ یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ پارلیمان میں سوالات کے جوابات د یں تاکہ متکبر وزیر کی انا کوٹھیس نہ پہنچے۔ پارلیمان کی بالادستی صرف حزب اختلاف اور سرکاری ملازمین پر ہی نہیں ،حکومت ‘ وزیراعظم اس کے وزراء بلکہ حکمران پارٹی اور اس کے اراکین پر بھی لاگو ہوتا ہے مثال کے طورپر وزیراعظم ہر جلسہ عام میں قومی دولت تقسیم کرتے نظر آ تے ہیں حالانکہ آئین اور قانون کی رو سے قومی بجٹ سے باہر ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چائیے۔
حال ہی میں اپنے صنعت کار بھائی بندوں کو وزیراعظم نے سرکاری خزانے سے 180روپے خیرات میں دئیے اتنی بڑی خیرات صنعت کاروں کو بجٹ کے دائرہ کار کے اندر نہیں دی جا سکتی ، پہلے اس کو پارلیمان سے منظور کرواتے پھر 180ارب روپے اپنے دوست صنعت کاروں کو دیتے۔ بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور پاکستان کے رقبے کا نصف ہے ، اس کا انتظامی بجٹ بھی تقریباً اتنا ہی ہے جتنا صنعت کاروں کو دیا گیا۔ یہ کسی ملک کے منتخب وزیراعظم کا نہیں بلکہ کسی بادشاہ کا طرزعمل معلوم ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کریہ کہ اپنے آپ کو پارلیمان اور عوام کے سامنے جوابدہ بھی نہیں سمجھا جاتا۔
دوسری جانب طرہ یہ کہ ان کو شکایات ہیں کہ لوگ ان کو من مانی نہیں کرنے دیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ذاتی فیصلے کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یہاں تک کہ کابینہ کا اجلاس بلانا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ آئین اور پارلیمان کی بالادستی کافرض پہلے حکمران جماعت ‘ وزیراعظم اوران کے کابینہ کے اراکین پر عائد ہوتی ہے آئین اور پارلیمان کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے پہلے وزیراعظم خود کو آئین اور پارلیمان کے تابع کریں بعد میں دوسرے لوگوں اور اداروں کو آئین کی پاسداری کی نصیحت کریں ۔