|

وقتِ اشاعت :   May 14 – 2017

 
 
 
ایک سال سے کم عرصے میں بلوچستان میں چار تباہ کن خودکش حملے ہوئے ، ان میں پہلا حملہ وکلاء پر ہو اجس میں ستر سے زائد معصوم انسان ہلاک ہوئے۔
 
دوسرا حملہ پولیس ٹریننگ کالج سریاب پر ہوا، تیسرا شاہ نورانی پر اور چوتھا خودکش حملہ مستونگ میں جمعیت کے کارروان پر کیا گیا ۔
 
جس کا مخصوص نشانہ مولانا عبدالغفور حیدری تھے جو حملے میں معمولی زخمی ہوئے مگر اس حملے میں 28افراد ہلاک اور چالیس کے لگ بھگ زخمی بھی ہوئے ۔
 
حملہ ایک خودکش بمبار نے کیا اور اس نے مولانا حیدری کی سرکاری گاڑی کو نشانہ بنایا ۔
اتفاق سے مولانا حیدری اس گاڑی میں سوار نہیں تھے وہ اپنے ایک دوست کی گاڑی میں سوار تھے جس کی وجہ سے وہ بچ گئے اور معمولی زخمی ہوئے۔ حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔
 
مولانا حیدری خواتین کے ایک دینی مدرسے میں دستار بندی میں شریک ہونے آئے تھے نماز جمعہ کے بعد جب وہ مدرسے سے روانہ ہوئے تو ان پر دہشت گرد نے حملہ کیا۔
 
مولانا حیدری ایک شریف النفس انسان ہیں ، اپنے معتدل مزاج کی وجہ سے ان کی کسی سے دشمنی نہیں ’ وہ اپنے سیاسی مخالفین سے بھی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں اس لیے ان پر ذاتی وجوہات کی بنا پر حملہ کرنا نا قابل یقین لگتاہے ۔
 
اگر مجموعی طورپر دیکھا جائے کہ ان کو جمعیت کی سیاسی یا مذہبی پالیسی کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تو یہ ممکنات میں شامل ہوسکتا ہے ۔ سیاسی طورپر وہ انتہائی فعال تھے اور موجودہ سیاسی صورت حال میں جمعیت کے صفحہ اول کے رہنما تھے مولانا فضل الرحمان کے بعد ان کا دوسرا نمبر آتا ہے ۔
 
آج کل وہ بڑے پیمانے پر سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف تھے شاید انہی سیاسی مذاکرات کی بناء پر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آئندہ جمعیت بلوچستان کی حکومت بنا ئے گی اس کے لیے وہ بلوچ قوم پرست جماعت سے انتخابی اتحاد کا ارادہ رکھتے ہیں چونکہ ان کا تعلق قلات سے ہے ۔
 
بلوچستان میں اس سے لوگ زیادہ کھل کر سیاسی مذاکرات کرتے ہیں بلکہ ان پر مقامی طورپر اعتبار بھی زیادہ کرتے ہیں ۔موجودہ حالات میں انہوں نے جمعیت کے دیگر رہنماؤں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے، مختلف سیاسی پارٹیاں اور رہنماء مولانا غفور حیدری سے بات چیت کرنے کو فوقیت دیتے ہیں ۔
 
اگر آئندہ انتخابات میں ان کو موقع ملا کہ وہ بلوچستان میں حکومت بنائے تو یقینی طورپر اس کے وزیراعلیٰ مولانا عبدالغفور حیدری ہونگے ۔
 
اس لیے بعض لوگوں کو یہ گمان ہے کہ ان کو ان کی سیاسی مقبولیت کی بناء پر نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب مولانا حیدری کبھی بھی مذہبی معاملات میں ملوث نہیں پائے گئے ان کا طرز عمل عام مسلمانوں جیسا ہے حالانکہ وہ ایک بلند پایہ عالم دین ہیں ۔
 
لیکن انہوں نے اپنی علمیت کا کبھی تفاخرانہ مظاہرہ نہیں کیا اور ہمیشہ ایک اچھے سیاسی کارکن کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کیا ۔
 
ان پر کرپشن کے الزامات کبھی بھی اور کسی بھی دور میں نہیں لگے حالانکہ وہ 1990ء کی دہائی میں صوبائی وزیر بھی رہے۔
 
ان کو کیوں نشانہ بنایا گیا یہ کہنا ابھی مشکل ہوگا حالانکہ جمعیت بلوچستان میں بہت سی متنازعہ شخصیات موجود ہیں ، وہ آزادانہ طور پر اور بغیر محافظ کے گھوم رہے ہیں ۔ اب یہ کام سیکورٹی اداروں کا ہے کہ وہ تفتیش کریں اور عوام کو اس کے نتائج سے آگاہ کریں۔
دریں اثناء پورے ملک کے سیاسی رہنماؤں نے اس خودکش حملہ کی مذمت کی ہے ہفتہ کی صبح کو جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان ‘ مولانا عبدالغفور حیدری کی عیادت کے لئے کوئٹہ پہنچ گئے ۔
 
انہوں نے اپنا بلوچستان کا سیاسی دورہ ملتوی کردیااور صرف مولانا غفور حیدری اور دوسرے زخمیوں کی عیادت کے لئے کوئٹہ آئے ۔ اس سے قبل کمانڈر سدرن کمانڈ جرنل عامر ریاض نے بھی مولانا غفور حیدری کی سی ایم ایچ میں عیادت کی ۔