بلوچستان کی اکثریتی آبادی کی شکایات میں ر وز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ، بعض لوگوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کی شکایت ہے۔ اکثریتی آبادی کہتی ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہاہے ۔
گزشتہ کئی سالوں سے ایک مخصوص مافیا زیادہ طاقتور ہوگیا ہے کیونکہ اس کے پاس اس کی قد کاٹ سے زیادہ اختیارات آگئے ہیں جو حکومت وقت کے تقویض شدہ اختیارات کے ساتھ اکثریتی آبادی کو دن دیہاڑے امتیازی سلوک کا نشانہ بنارہا ہے۔
اس کی مثال بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کے ساتھ سلوک ہے کیونکہ بلوچوں کے ساتھ یونیورسٹی میں داخلوں اور ملازمتوں کے حوالے سے زبردست امتیاز بھرتا جارہا ہے ۔
گزشتہ کئی سالوں سے سرکاری ملازمتیں حقداروں کو نہیں ملیں بلکہ ان ملازمتوں کو سر عام نیلام کیا گیا۔ اس پر دو سابق وزراء نہ صرف گرفتا ہوئے بلکہ ان کو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوئیں۔ بلوچستان اسمبلی کا ایک سرکاری ملازم ابھی تک ملازمت خریدنے کی قسطیں ادا کررہا ہے ، اس نے حکام بالا سے اس کی شکایت بھی کی ہے ۔
لیکن اس کے باوجود ملازمت بیچنے والا شخص بلا خوف و قطر قسطیں وصول کررہا ہے ۔ بلوچستان صوبائی اسمبلی پر نظر دوڑائیں تووہاں صرف ایک ہی زبان بولنے والے لوگ ملیں گے۔
بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں بلوچوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ اسی طرح صوبائی محتسب اعلیٰ کے دفتر سے متعلق شکایات بلوچستان اسمبلی کے فلور پر زور دار آواز کے ساتھ سنائی دیں۔ جے یو آئی کے سردار عبدالرحمان نے وہ دستاویزات اسمبلی کے اراکین کو دکھائیں اور ان کو اسمبلی کے دستاویزات کا حصہ بنایا ۔
ان کو یہ شکایت تھی کہ ڈویژنل اور ضلعی کوٹہ کو یک طرفہ آمرانہ طریقہ سے ختم کردیا گیا ہے اور نام نہاد میرٹ کے نام پر 20افراد کو ملازمتیں جو ایک مخصوص ٹولے سے تعلق رکھتے ہیں ان میں بانٹا جا رہاہے ، یہ اختیار افسر اعلیٰ کو کس نے دیاہے ۔
بلوچستان میں ون یونٹ کے دور سے ڈویژنل اور ضلعی کوٹے کا نظام رائج ہے جس کا واحد مقصد کم ترقی یافتہ علاقوں کے لوگوں کو بھی روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرنا ہے جب تک ان علاقوں کو ترقی نہیں دی جاتی اور ان کا معیار تعلیم کوئٹہ کے ہم پلہ نہیں ہوجاتا، ایک مخصوص کوٹہ ان پسماندہ طبقات کے لئے مختص کیا گیا ہے ۔
بلکہ زیادہ صحیح اور درست بات یہ ہے کہ ڈویژن اور ضلع کی سطح پر اہل ترین افراد کو ملازمتیں فراہم کی جارہی تھیں ۔ اچانک میرٹ کا فراڈ مافیا سامنے آیا جس نے اپنی من مانی کرتے ہوئے یک طر فہ طور پر ڈویژن اور ضلعی کوٹہ کو میرٹ کے نام پر ختم کردیا ۔
اس طرح یہ مافیا روزگار کے محدود ذرائع پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی کوشش کر رہاہے ۔ آئی ٹی یونیورسٹی اس فراڈ میں سرفہرست ہے جہاں میرٹ کے نام پر بلوچ طلباء کو ان کا جائز حق نہیں دیا گیا ۔جتنے بلوچ طلباء کو آئی ٹی یونیورسٹی میں داخلہ ملنا چائیے تھا وہ نہیں ملا ۔
کوئٹہ مافیا نے آئی ٹی یونیورسٹی پر آج دن تک قبضہ جمایا ہوا ہے دوردراز علاقوں کے پشتون اور بلوچ طلباء کا یہ حق ہے کہ ان کو بھی آئی ٹی یونیورسٹی میں ڈویژن اور ضلعی کوٹہ کی بنیاد پر داخلے دئیے جائیں ۔
اس کے لیے بلوچ طلباء نے سالوں مظاہرے کیے ، احتجاج کیے ، بھوک ہڑتال کی۔ اس کا غصہ نکالنے کے لیے ایک طالب علم کو جھوٹاالزام لگا کر قتل کردیا گیا کیونکہ اس نے بھوک ہڑتال کی تھی اور جلسے جلوس کی قیادت کی تھی۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے سرکاری مشینری سے مل کر اس کو قتل کروایا اور اس پر دہشت گرد ہونے کے بد نما الزامات بھی لگائے ۔ہم وزیراعلیٰ اور اسمبلی کے اراکین سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ بنا کسی حیل و حجت کے اس دیدہ دلیری کو روکنے کے لیے کردار ادا کریں اور بلوچ اکثریت کے تمام جائز حقوق کا تحفظ کریں اور ثابت کریں کہ وہی اس صوبے کے اصل نمائندے ہیں۔
یہ حکومت وقت اور اراکین اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ حقدار کو اس کا جائز حق دلائیں اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنائیں تاکہ کل کلاں کو اپنے عوام الناس کے سامنے سروخرو ہوسکیں ۔