|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2017

حال ہی میں  کوئٹہ میں ایک آگاہی نشست ہوئی جس میں انسانی اسمگلنگ کے مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ یورپی ممالک میں اس حوالے سے زیادہ تشویش پائی جاتی ہے کہ افریقہ اور ایشیاء سے کروڑوں لوگ یورپی ممالک کا رخ کر رہے ہیں تا کہ ان کو وہاں بہتر زندگی گزارنے کا موقع مل سکے ۔

گزشتہ پانچ دہائیوں سے انسانی اسمگلروں کاپسندیدہ روٹ بلوچستان ہے ، اس کے لیے سمندر اور زمینی راستے استعمال ہورہے ہیں ۔سمندر کے راستے لوگ گلف ممالک اور سعودی عرب جارہے ہیں جبکہ زمینی راستے سے ایران کو انسانی یلغار کا سامنا ہے ۔

ایرانی سرحدی محافظین روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں پنجابی اور پختون تارکین وطن کو ایرانی بلوچستان سے گرفتار کرتے ہیں اور پاکستانی سرحد پر سرکاری حکام کے حوالے کرکے ان کو شرمندہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے دوردراز علاقوں سے لوگ ٹرکوں اور بسوں میں پاکستانی سرحد بغیر کسی پریشانی کے پار کرتے ہیں ۔

لیکن ایران میں پکڑے جاتے ہیں۔ انسانی اسمگلروں کا مرکز وسطی پنجاب خصوصاً گجرات اور اس کے قرب و جوار کے علاقے ہیں جہاں پر ایجنٹ سرکاری افسران کی سرپرستی میں لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو پھانستے ہیں۔

ان سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں اور سرحدی محافظین کی سرپرستی میں بہ حفاظت ایرانی سرحد عبور کرواتے ہیں۔ راقم سڑک کے راستے اپنے بچوں کے ساتھ ایران جارہا تھا تو نوشکی اور تفتان تک ہمیں 11چیک پوائنٹس پر روکا گیا۔

سوالات پوچھے گئے حالانکہ میں اور میرے بچے حلیہ اور زبان سے مقامی تھے لیکن ہم کو سرحدی محافظین نے 11مقامات پر روکا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سمگل ہونے والے انسانوں سے بھرا ہوا بس گجرات سے تفتان یا ماشکیل تک پہنچتی ہے تو اس کو کوئی کیوں نہیں روکتا اور چیک کیوں نہیں کرتا۔

چونکہ وہ سرکاری اور طاقتور وزارت داخلہ کی سرپرستی میں جاتی ہے لہذا اس کو جانے کی بلا روک ٹوک اجازت ہے ۔ یہ بات لغو ہے کہ اس میں مافیا ملوث ہے سیدھی بات یہ ہے کہ سرکاری سرپرستی بلکہ وزارت داخلہ کی سرپرستی میں انسانی اسمگلنگ جاری ہے ۔

بعض افراد کا یہ خیال ہے کہ یہ حکومتی پالیسی کا حصہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو یورپی ممالک بھیجا جائے تاکہ بے روزگاری کا بوجھ کم تر ہو اور دوسری طرف یہی نوجوان غیر ملکی زرمبادلہ پاکستان بھیجیں تاکہ پاکستان کے معاشی مشکلات کم سے کم ہو ں ’ اس لیے ان انسانوں کو وزارت داخلہ کی حفاظت بلکہ پروٹوکول میں ایران روانہ کیاجاتا ہے ۔

پاک سرزمین پر کوئی گرفتار ی نہیں ہوتی یہاں تک کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں میں بھی ان کو سرکاری پروٹوکول دیا جاتا ہے لیکن جب یہ گرفتار ہو کر ایران سے واپس بھیجے جاتے ہیں تو ان کو غریب لیویز کی حفاظت میں واپس کوئٹہ لایا جاتا ہے ۔ لیویز کے سپاہی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ راستے میں ان کو کھانا کھلائے، ان کی تنخواہ پولیس کی نسبت انتہائی کم ہے ۔