یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں عوامی مشکلات سے زیادہ سیاست کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ چمن بارڈر کی بندش کو دس دن سے زیادہ ہوگئے ہیں جس سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے ۔
لاکھوں افراد سرحد کے دونوں پار متاثر ہورہے ہیں چمن بارڈر سے اربوں روپے کا کاروبار روزانہ ہوتا ہے یوں اربوں روپے کا نقصان دونوں ممالک کو ہورہا ہے ۔ جلد خراب ہونے والے سبزی ‘ پھل اور دوسرے اجناس گل سڑرہے ہیں ۔حکمرانوں کی سیاست اور ایک دوسرے کے ملک کو نیچا دکھانے کی کوشش عروج پر ہے ۔
یہ بات واضح اور صاف ہے کہ افغانستان کے افواج نے بغیر کسی اشتعال کے پاکستان کے شہری آبادی پر گولہ باری اورفائرنگ کی جس میں دس سے زیادہ افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہوئے ۔
پاکستان پر حملہ بغیر کسی اشتعال کے تھا اور اس کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی ۔ اب پاکستان صرف اور صرف یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ آئندہ ایسے وحشت ناک واقعات نہ ہوں اور بین الاقوامی سرحدوں کا مکمل احترام کیاجائے۔
اس سے قبل یہ ثابت ہوچکاہے کہ کلی لقمان اور کلی جہانگیر پاکستانی سرحد کے اندر واقع ہیں بلکہ ڈیورنڈ لائن کے اِس جانب ہیں ،اس طرح سے ان علاقوں پردعوے کا افغانستان کا موقف نقشوں کی مدد سے غلط ثابت ہوا ۔
اس لیے افغان حکام کو چائیے کہ وہ ضروری یقین دہانی کرائیں تاکہ پاکستانی حکام کے لئے جائز جواز پیدا ہو تاکہ وہ سرحدوں کو کھول دیں اور عوام الناس کو آنے جانے کی آزادی مل جائے اور دونوں ممالک کے عوام کا مزید نقصان نہ ہو ۔
یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ وہ پر امن ہمسایوں کی طرح رہیں ، ایک دوسرے سے تعاون کریں ۔بھارت کی سرحدیں افغانستان سے نہیں لگتیں یہ پاکستان ہی ہے کہ جو افغان عوام کی تمام ضروریات کو پورا کررہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا لیکن ا س کی 2500کلو میٹر سرحد پر امن ضروری ہے ۔