|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2017

12کواخبارات میں آئی ایس پی آر کے حوالے سے یہ خبرشائع ہوئی کہ لیاری گینگ، جوپیپلزامن کمیٹی کے نام سرگرم  تھا، کے سابق سربراہ عزیربلوچ کوفوج نے اپنی تحویل لیاہے۔

آرمی کاموقف ہےکہ اس نے حساس قسم کی سیکورٹی محلومات غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کوفراہم کیں۔ایک بھارتی ذریعہ کے مطابق عزیرجان بلوچ کوکلبھوشن یادیوکی جاسوسی میں مدد دینے کے الزام پرآرمی نے اپنی تحویل میں لیاہے۔

ان پرپڑوسی ملک کے لئے جاسوسی کرنے کا الزام ہے۔ کراچی کاعلاقہ لیاری اس حوالے سے اہم ہے کہ یہ ناں صرف سیاسی تحریکوں بلکہ یہ بلوچ قوم پرستوں اورجرائم پیشہ افرادکابھی گڑھ رہاہ بلکہ  یہاں بلوچ،کچھی اورپشتون آبادہیں۔

یہ ساحل سمندرسے قریب ترین علاقوں میں سے ایک قدیم بستی ہے اورآبادی کاایک بڑاحصہ ماہی گیری سے روایتی طورپروابستہ رہاہے۔ یوں یہ ایران، انڈیا، مسقط، عمان اورامارات سے بحری راستہ سے رابطے میں بھی ہے۔ ایرانی بلوچوں کی ایک بڑی تعداد کراچی میں رہتی ہے۔

بلوچستان کی سرحد خشکی اوربحری دونوں ذرائع سے ایران سے ملتی ہیں اوربلوچ سرحد کے دونوں  طرف آباد ہی نہیں بلکہ آتے جاتے بھی ہیں۔ عزیربلوچ کورینجرز نے 30جنوری 2016کو گرفتارکرنے کااعلان کیاتھا۔ 90دن رینجرزکی نگرانی میں دینے کے بعدسے وہ پولیس کی تحویل میں تھے۔

ان کے بارے میں متضادقسم کی افواہیں گردش کررہی تھیں۔ ایک عام خیال یہ تھاکہ دراصل عزیرکے ذریعے سے ‘مقتدرادارے’، پیپلزپارٹی کودباومیں رکھناچاہتے تھے۔

جب عزیرگرفتارہواتوصوبہ سندھ کے سنیئروزیرنثارکھوڑوکاکہناتھاکہ اس میں کوئی نئی خبرنہیں۔ وہ پہلے ہی ان کی تحویل میں تھے۔

کسی کانام لئے بغیرانہوں نے کہاکہ ان سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ان کوکب اورکہاں سے گرفتارکیاگیاہے۔

وزیراعلی قائم علی شاہ کاکہناتھاکہ وہ پارٹی میں ضرورشامل تھامگراس کومجرمانہ سرگرمیوں کی بناء پرپارٹی سے نکال دیاگیاتھا۔

عزیرجان بلوچ کوفوج نے ایک ایسے وقت میں جاسوسی کے الزام میں اپنی تحویل لینےکا اعلان کیاہے جب ایک بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیوکو ایران کے راستے پاکستان میں جاسوسی کےالزام میں گرفتاری اوراب جاسوسی کے الزام  میں پھانسی کی سزاسنائی گئی ہے۔

کلبھوشن کے بارے میں پاکستسانی حکام کاکہناہے کہ وہ بحری فوج میں حاضرسروسافسرہیںاورانڈیاکی خفیہ ایجنسی کے لے جاسوسی کرنے پرمامورتھے۔ 

عزیربلوچ نے بھی پاکستان سے فرارکے لئے ایرانی پاسپورٹ استعمال کیاتھااوردبئی میں گرفتارہواتوپاکستان کے ساتھ ایران نے بھی اس کواپنے تحویل لینے کی کوششیں کیں۔

اس طرح پاکستانی ریاستی اداروں کوشک گزارا کہ پاکستان کے خلاف اقدامات میں ایران،افغانستان اورانڈیاکا کوئِی خفیہ ہاتھ سرگرم ہے۔ اس کوتقویت یوں بھی ملتی ہے کہ جب ایرانی صدرروحانی، مارچ 2016میں وزیراعظم نوازشریف کی دعوت پرپاکستان  کے دورے پرآئے توپاکستانی عسکری ذرائع نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیوکی گرفتاری ظاہرکی تھی۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پہلی بارتھاکہ را کی سرگرمیوں کے بارے میں ہدف بھارت کے بجائے ایران نظرآرہاتھا جس میں مبینہ جاسوس کے ایران میں نیٹ ورک بارے میں ایران سے معلومات کاتقاضہ کیاجارہاتھا۔

کلبھوشن نے اپنے اعترافی بیان میں جوایک ویڈیوکی صورت میں سامنے آیا ہے میں کہاکہ اس کامطمع نظربلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ ساحلی علاقوں میں سرگرمیاں تھی۔

اوراس کی نگاہ بلوچستان میں بحری تنصیاب پرتھیں۔ کلبھوشن کے پاس ایرانی پاسپورٹ اورکرنسی پکڑی گئی تھی ۔

عزیرجان 1977کولیاری کے کلاکوٹ علاقہ کے ایک محلہ ‘افشانی’ میں پیدا ہوا۔اس کا باپ فیض محمد عرف فیضو،پیشہ کے لحاظ سے ٹرانسپورٹرتھا۔انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرنے والا عزیراپنی کبوتربازی کے لئے مشہورتھا۔

2001میں اس نے 24سال کی عمرمیں لیاری کے بلدیاتی حلقہ یوسی 9سے ناظم کا الیکشن لڑا اوردوسری پوزیشن حاصل کی۔

عزیر، پیپلزپارٹی کے امیدوارحبیب حسن سے شکست کھاگئے تھے۔ لیکن 2013کے آتے آتے اس نے لیاری میں ایک‘‘سردار’’ حیثیت اختیارکرلی تھی اورپیپلزپارٹی کومجبورہوناپڑاکہ اس کے نامزدکردہ امیدواروں کوپارٹی ٹکٹ دے۔

عزیراپنے پیش رو، رحمان ڈکیٹ (اصل نام عبدالرحمن) سے الگ پس منظررکھتاتھا۔ رحمان ڈکیٹ جس نے اپنے گینگ کانام 2008میں پیپلزامن کمیٹی رکھا، کے والد اورچچا جرائم کی دنیا سے وابستہ تھے۔

یہ منشیات کے دھندے سے بھی منسلک تھے۔ لیکن عزیر ایک مڈل کلاس خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ عزیردراصل اپنے والد کے قتل کابدلہ لینے کی خاطر جرائم کی دنیا میں آیا۔

ٹرانسپورٹرزکے ساتھ ایک تنازعہ میں 2003میں علاقہ کے بدمعاش ارشدپپونے لی مارکیٹ سے عزیرکے والد ٹرانسپورٹرفیض محمدعرف فیضوکوبھتہ نہ دینے پراغواء اوربعدازاں قتل کیاتو26سالہ عزیزنے جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے کافیصلہ کیا۔ 2005میں چوہدری اسلم نے اسے سجاول سے گرفتارکیامگرپیرول پررہائی ملی۔

2008میں جب رحمان ڈکیٹ نے سب گینگز کوجمع کرکے پیپلزامن کمیٹی بنانے کی طرف قدم بڑھایاتوعزیربلوچ کے ساتھ ایک ہوٹل میں ملا اورمشترکہ لائحہ عمل اخیتارکرنے پراتفاق ہوا۔

 2009میں رحمان ڈکیٹ کوایک جعلی پولیس مقابلہ میں تین ساتھیوں سمیت چوہدری اسلم نے ہلاک کیاتو گینگ کاتاج عزیرکے سرپرسجایاگیا۔

اب اسے پیپلزپارٹی اوراسٹبلشمنٹ کے مختلف دھڑوں کی پشت پناہی حاصل رہی۔ پیپلزپارٹی کوعلاقہ میں اپنی سیاسی برتری اورشہرمیں ایم کیوایم کی غنڈی گردی کے لئے یہ ایک متبادل پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔

تب وزیرداخلہ ذوالفقارمرزااس کی پشت پرتھا۔دیگرریاستی اداروں کواس سے غرض تھی کہ رحمان ڈکیٹ کی طرح عزیربھی بلوچ علیحدگی پسندوں کولیاری میں پنپنے نہ دے تواس کے جرائم کونظراندازکیاجاسکتاہے۔

ایک سنئرپولیس افسرکے بقول پیپلزپارٹی اپنی حکومتی پارٹنر ایم کیوایم کے دہشت گرد ونگ کامقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔

اس کے ساتھ ہی یہ کسی ایسی صورتحال کی پشت رفت سے بھی گھبراتی جس میں آرمی کومداخلت کا موقع ملے۔

شہرمیں ناصرف یہ کہ ایم کیوایم کااپنادہشت پسند ونگ کام کررہاتھابلکہ اس نے درپردہ امن کمیٹی کے مخالف ارشدپپوکی سرپرستی بھی شروع کردی تھی۔

یوں ایم کیوایم بھی اس کھیل میں ایک اورطریقے سے بھی مداخلت کررہی تھی۔ایسا لگتاہے کہ پیپلزپارٹی نے ماضی میں‘‘الذولفقار’’نا می دہشت گرد ونگ کے تجربہ کومدنظررکھتے ہوئے اپنے الگ دہشت گروپ بنانے کی پالیسی کومسترد کرتے ہوئے  پہلے سے موجود لیاری گینگ کی پشت پناہی کا فیصلہ کیا۔

لیکن اس نے پیپلزپارٹی کے لئے بھی مسائل پیدا کئے۔ 2011میں عزیربلوچ پی پی پی اورزرداری کے دست راست مظفر اویس ٹپی سے ملے جس میں مظفرٹپی نےعزیرکو پارٹی فیصلوں پرپابندرہنے پرزوردیا۔عزیرنے ایساکرنے سے انکارکردیا۔

عزیزکے بقول اسے 25کروڑروپے کی پیش کش کی گئی تھی۔ عزیرکہتاہے کہ میں نے پیسہ کوٹھکراتے ہوئے لیاری کے مسائل حل کرنے کامطالبہ کیا۔

مظفراویس نے اس کی تریدکی۔ تب عزیرجان بلوچ کے خلاف لیاری میں آپریشن کرنے کافیصلہ کیاگیا۔

27اپریل تا 4مئی 2012میں لیاری امن کمیٹی کے خلاف سی آئی ڈی کے ایس ایس پی چوہدری اسلم کی قیادت میں آٹھ روزہ پولیس آپریشن کیاگیا۔

آٹھ دن بعد جب کارروائی سے متعلق متضاد بیانات سامنے آئے۔ اس وقت کے وزیرداخلہ رحمان ملک کا کہناتھاکہ کاروائی روکی گئی ہے جبکہ اس آپریشن کے انچارج چوہدری اسلم کاکہناتھاکہ مطلوبہ مقاصد کے حصول تک کارروائی جارہے گی۔ گینگ کے ساتھ اس آٹھ روزہ پولیس مقابلہ میں چھ پولیس والے بھی مارے  گئے ۔

 دوسری طرف عزیربلوچ کے دورمیں امن کمیٹی کا پھیلاؤلالوکھیت اورلانڈھی کے علاقوں تک ہوگیاتھا۔

مقامی چھوٹے بدمعاش اس کے پوسٹرزعلاقوں میں بجلی کے کھمبوں سے آویزاں کرتے اوراپنا اثربڑھاتے۔2013کے الیکشن میں توصورتحال یہ ہوگئی تھی کہ کراچی کے اردگرد کی مضافاتی بلوچ بستیوں میں پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے لئے الیکشن مہم چلانادشوارہوگیاتھااورامن کمیٹی جس امیدوارکے ساتھ ہوتی پورے علاقہ میں صرف اسی کے جلسہ جلوس ممکن ہوسکتے تھے۔

جیوکے مطابق عزیرنےجوائنٹ انٹروگیشن رپورٹ جورینجرزنے مرتب کی، میں 197افرادکے قتل کااعتراف کیاتھا ۔

عزیربلوچ کسی وقت اتنابااثرتھاکہ اس نے چیرمین فشریزکوتعینات کروایاتھا۔لیاری کے علاقہ میں اس کی محل نما حویلی تھی جس میں پیپلزپارٹی کے دیگرعہدیداروں کے علاوہ وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ کی بھی دعوت کی گئی تھی۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ عزیرجان کس طرح سے بھارتی جاسوس کلھبوشن یادیوسے رابطہ میں آیا۔ اس میں ایران کاکردارکیاتھا۔ اوراس نے کس طرح کی معلومات بھارتی جاسوس کے ساتھ شئرکیں۔

ان حقائق کاذکرابھی تک رینجرزکی رپورٹوں میں سامنے نہیں آیاتھا۔ اس کے  جاسوس کے طورپرکردارکے بارے میں نئے انکشافات کی توقع کی جاسکتی ہے۔

یوں کبوتربازعزیرجان بلوچ کا یوسی الیکشن ہارنے  سے لے کربدلہ اورانتقام کے ذریعے جرائم کی دنیا میں قدم رکھناپھراورجرائم کی دنیاسے سیاستدان بننے اوراس کے بعد دوبارہ جرائم اورملک دشمن سگرمیوں میں ملوث ہونا ایک ایسی داستان ہے جو کئی بار نیا رنگ اختیار کرتی نظر آتی ہے ۔

بشکریہ تجزیات اور سرتاج خان