کوئٹہ: لوچستان کے گزٹڈآفیسران سمیت45ہزار سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے شناختی کارڈبھوگس ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے نادرا کی مدد سے کرائی گئی ویری فیکشن میں 18 سال سے کم عمر 41بچے بھی سرکاری ملازمین نکلے۔ غیرملکیوں ہونے کے شبے میں بلاک ہونیوالے شناختی کارڈ کے حامل 1620 افراد بھی سرکاری ملازمتوں پر براجمان ہیں۔
حیرت ناک بات یہ ہے کہ نادرا ویریفیکشن کے 2 ماہ گزرنے کے باوجود ان مشکوک ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے ۔ ادھرسرکاری ملازمتوں ،ترقیاتی فنڈز اور دیگر سرکاری ادائیگیوں میں بے ضابطگیوں کے تدارک پر کام کرنیوالے محکمہ خزانہ کے آفیسران کا تبادلہ کردیا گیا ۔
حکومت بلوچستان کے ذرائع کے مطابق جنوری2017ء میں حکومت بلوچستان نے محکمہ خزانہ کے ذریعے نادرا کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت نادرا نے بلوچستان کے دو لاکھ پچانوے ہزار ملازمین کے کوائف کی جانچ پڑتال کی۔
یہ جانچ پڑتال ان مانیٹرنگ رپورٹس کے بعد کرائی گئی جس میں یہ بات پتہ چلی تھی کہ سرکاری ملازمین اپنے تقرر ناموں میں جعلی شناختی کارڈ کا اندراج کرواتے ہیں اس طرح وہ دوہری سرکاری ملازمتیں باآسانی حاصل کرلیتے ہیں۔
نادرا نے ڈائریکٹر جنرل ٹریژریز اینڈ اکاؤنٹس کی جانب سے فراہم کردہ 2 لاکھ95ہزار 457 ملازمین اور پنشنرز کے شناختی کارڈ نمبر کی جانچ پڑتال کا عمل مکمل کرکے مارچ میں محکمہ خزانہ کو رپورٹ پیش کردی۔ رپورٹ میں ہوش اڑانے والے حقائق سامنے آگئے۔
2 لاکھ 95 ہزار 457 میں 2لاکھ49ہزار 749 سرکاری ملازمین اور پنشنز کے شناختی کارڈ کی تصدیق ہوئی جبکہ 45 ہزار708ملازمین اور پنشنرز کے شناختی کارڈ بھوگس، غیر تصدیق شدہ ، بلاک نکلے یا پھر ریکارڈ میں ہیر پھیر کیا گیا۔
ان سرکاری ملازمین میں گریڈ سترہ اور اس کے اوپر ملازمین بھی شامل ہیں۔روزنامہ آزادی کو ملنے والے دستاویزات کے مطابق 17ہزار 341ملازمین کی جانب سے تقرری کے وقت فراہم کردہ شناختی کارڈ نمبر ہی درست نہیں یعنی ان کے اعدادمطلوبہ 13 کی بجائے کم یا زیادہ تھے۔اس طرح نادرا نے 2 لاکھ 95 ہزار457 ملازمین میں2 لاکھ 78 ہزار 116 ملازمین کے شناختی کارڈ کی اپنے ریکارڈ میں جانچ پڑتال کی۔
جانچ پڑتال میں معلوم ہوا کہ2لاکھ 78 ہزار 116 میں 26 ہزار 431 شناختی کارڈ غیر تصدیق شدہ یا پھر وجود ہی نہیں رکھتے تھے یا پھر ان کے ریکارڈ میں جعل سازی کی گئی۔ 1620 ایسے افراد بھی سرکاری ملازمتوں کے حامل ہیں جن کے شناختی کارڈ غیر ملکی ہونے کے شبے میں یا پھر مختلف وجوہات کی بناء پر بلاک کئے گئے ۔ 271 ملازمین ڈوپلیکٹ شناختی کارڈ کے حامل نکلے۔
41 ایسے ملازمین کا بھی انکشاف ہوا جن کی عمر نادرا ریکارڈ کے مطابق 18سال سے کم تھی۔جبکہ4 افراد کے شناختی کارڈ کے کوائف نا مکمل تھے۔ سب سے زیادہ غیر تصدیق شدہ ملازمین کا تعلق محکمہ تعلیم، صحت، زراعت، محکمہ تعمیرات اور پولیس سے ہیں۔45ہزار سرکاری ملازمین اور پنشنز کی تنخواہیں اور پنشن اتنا عرصہ کہاں جاتی رہی کسی کو کچھ پتہ نہیں۔
روزنامہ آزادی کو ملنے والے محکمہ خزانہ کے ایک مراسلے سے معلوم ہوا ہے کہ نادرا کی رپورٹ کے بعد محکمہ خزانہ بلوچستان نے تمام متعلقہ محکموں کے سربراہوں کو مشکوک ملازمین کی فہرستیں حوالے کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ان فہرستوں کومتعلقہ ڈی ڈی اوز کیساتھ شیئر کرکے رپورٹ سیکریٹری خزانہ بلوچستان کو پیش کریں۔
اس سلسلے میں تمام متعلقہ سیکریٹریز کو 20 اپریل تک ایک ماہ کا وقت دیاتاہم ایک ماہ کی بجائے دو ماہ گزرنے کے باوجود کسی بھی محکمے کے سیکریٹریز نے مشکوک ملازمین سے متعلق محکمہ خزانہ کو رپورٹ جمع نہیں کرائی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جن ملازمین کے شناختی کارڈ کی تصدیق نہیں ہوئی انہیں متعلقہ محکموں کے ذریعے تحقیقات مکمل کرنے کے بعد ملازمتوں سے برطرف کردیا جائیگا۔
دستیاب دستاویزات کے مطابق جن 17 ہزار 324 ملازمین نے غلط شناختی کارڈ نمبر فراہم کئے ان میں 71 ایڈمنسٹریشن آف جسٹس ڈیپارٹمنٹ، 194 بلوچستان کانسٹیبلری،3 محکمہ تعلیم،76 لینڈ ریونیو،35محکمہ جنگلات،7محکمہ ماہی گیری، 35 کوآپریٹیو ڈیپارٹمنٹ،203آبپاشی ،1 سول ڈیفنس،297 سول ورکس بی اینڈ آر، 2 کلچر سروسز ڈیپارٹمنٹ،120 ڈیٹیٹینشن پلیسز ڈیپارٹمنٹ،5 کوئٹہ پولیس، 31 پاپولیشن ویلفیئر ،11 ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ، 10200 پنشنرز،3 انرجی ڈیپارمننٹ،1 ماحولیات،90 خوراک،27 جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (چارجڈ)،192جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ،430سحت، 87پبلک ہیلتھ انجینئرنگ،548ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ، 24 انڈسٹریز،90 افراد کا تعلق لیویز سے بتایا جاتا ہے۔
جبکہ99 لائیو اسٹاک، 132محنت و افرادی قوت،52مائنز اینڈ منرل، 3750 پولیس،43 پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ،47 پروانشل ایکسائز ڈیپارٹمنٹ،17محکمہ مذہبی و اقلیتی امور،36 رورل ڈویلپمنٹ،292 سیکنڈری ایجوکیشن،23 سوشل ویلفیئر،7 کھیل،1 سٹینشنری اینڈ پرننٹنگ ڈیپارٹمنٹ جبکہ 40 ملازمین کا متفرق محکمہ جات سے تعلق ہے۔
دستاویزات میں فراہم کردہ ایک علیحدہ فہرست ان 28 ہزار367 ملازمین کی بنائی گئی ہے جن کے شناختی کارڈ غیر تصدیق شدہ تھے یا ان میں کوئی گڑبڑاتھا ۔ اس فہرست کی تفصیل کے مطابق زراعت کے کے13ہزار437ملازمین 912کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
لیویز کے 13483 میں سے 744 ،پراسکیوشین کے 225 میں سے 4، ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کے 66 میں 2، مختلف محکمہ جات کے 11میں سے 4، ایڈمنسٹریشن آف جسٹس کے 2333 میں تمام 2333 ملازمین کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
بلوچستان کانسٹیبلری کے 9094 میں 599 ،انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کے 426 میں 15،پروانشل ایکسائز کے1609میں 92ملازمین کا ریکارڈ غیر تصدیق شدہ نکلا ۔
محکمہ تعلیم کے49 میں سے 8، لینڈ ریونیو کے 322 میں سے 19 ، سول ورکس بی اینڈ آر کے19 ہزار 822 میں سے 1372 کے شناختی کارڈ کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ توانائی محکمہ کے 158 میں 5 ، متفرق محکمہ جات کے 161 میں 55 ،ماہی گیری کے 152 میں 67 ،ایڈمنسٹریشن آف جسٹس ڈیپارٹمنٹ(چارجڈ) کے 753 میں 25، ہائیر ایجوکیشن کے 9 ہزار 333 میں 1276 ملازمین کی تصدیق نہیں ہوئی۔
اس کے علاوہ 46 ہزار 932 میں 12 ہزار 341 پنشنرز کے شناختی کارڈ غیر تصدیق شدہ نکلے یا پھر ان میں کوئی گڑبڑ تھی ۔
پارک منیجر کے 2 میں 1، پاپولیشن ویلفیئر کے 81 میں 22، ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ کے 5 ہزار 60کے 324، خوراک کے843 میں59 ملازمین ،جنرل ایڈمنسٹریشن (چارجڈ) کے 725 میں 55،انڈسٹریزڈیپارمنٹ 1564 میں 68،جنگلات کے 2,247 میں130 ملازمین کے شناختی کارڈ کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرکاری ملازمین کی جانچ پڑتال، بھوگس ملازمین کے خلاف کارروائی، ملازمین کو مینوئل کی بجائے کمپیوٹرائزڈ نظام کے ذریعے ادائیگیوں، ترقیاتی فنڈز سمیت دیگر مدات میں سرکاری ادائیگیوں کا نظام کمپیوٹرائزڈ اور آن لائن کرنے اصلاحات لانے اورمحکمہ خزانہ کے ڈائریکٹوریٹ آف ٹریژری اینڈ اکاؤنٹس میں تین سو کے قریب ملازمتوں پر بھرتیاں میریٹ پر این ٹی ایس ٹیسٹ کے ذریعے کرانے جیسے اقدامات پر حکومت میں شامل بعض با اثر افراد ،بااثر بیورو کریٹس اور ملازمین نے ڈی جی ٹریژری اینڈ اکاؤنٹس اور ان کے دفتر کی شدید مخالفت کی اور ان پر دباؤ ڈالا۔
ذرائع کے مطابق مشیر خزانہ بلوچستان اور ڈی جی ٹریژیر اینڈ اکاؤنٹس (ڈی ایم جی گروپ کے گریڈ انیس کے آفیسر )کے درمیان ملازمتوں پر بھرتیوں کے معاملے پر زبردست اختلاف بھی پایا گیا۔جس کے بعد دو مرتبہ ڈی جی ٹریژریز اینڈ اکاؤنٹس کے تبادلے کیلئے کوششیں کی گئیں جو دو سابق چیف سیکریٹریز نے ناکام بنائیں تاہم موجودہ چیف سیکریٹری کے آنے کے بعد مشیر خزانہ بلوچستان کی سفارش اور وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کی تجویز کے بعد محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی نے سرکاری آسامیوں کیلئے انٹرویوز سے صرف ایک دن قبل ڈی جی ٹریژریز کا تبادلہ کردیا۔
یاد رہے کہ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے مشیر خزانہ بلوچستان نے 20مارچ کو مذکورہ آفیسر سمیت چھ سرکاری آفیسران کے تبادلے کیلئے خط نمبرPS/Miister/Fin/Agri1-6/2017/38کے ذریعے وزیراعلیٰ بلوچستان کو سفارشات بجھوائیں اور ان آفیسران کا تبادلہ نہ ہونے پر 24اپریل کو احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا ۔بعد میں وزیراعلیٰ کی یقین دہانی پر 4مئی کو استعفیٰ واپس لے لیا تھا۔واضح رہے کہ 2014ء میں ڈی جی ٹریژریز اینڈ کاؤنٹس بلوچستان علی گل کرد کے دور سے لیکر اب تک ان ملازمتوں پر بھرتی کا عمل کئی بار ملتوی ہوچکا ہے۔