|

وقتِ اشاعت :   May 22 – 2017

حکومت کے ایک معمولی اقدام سے درجنوں بھوت اساتذہ اسکولوں میں نمور دار ہوئے اور اپنی حاضری لگانی شروع کردی نصیر آباد کے ڈپٹی کمشنر اور ایجو کیشن افسر نے ان غیر حاضر اساتذہ کی تنخواہیں موثر طریقے سے روک دیں اور تقریباً 14لاکھ روپے تنخواہوں کی مد میں اساتذہ کو جاری نہیں کیے۔

تو ان غیر حاضر اساتذہ میں کھلبلی مچ گئی اور وہ ڈیوٹی پر حاضر ہونا شروع ہوگئے اس پر طلباء اور ان کے والدین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ غیر حاضر اساتذہ سالوں بعد اسکولوں میں نمو دار ہوئے ہیں اس کی بنیادی وجہ تنخواہوں کی بندش تھی اگر یہ عمل سالوں قبل ہوتا تو حالات تبدیل ہوچکے ہوتے ۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ ایک مکمل مافیا ہے جو منصوبہ بندی سے کام کررہا ہے ۔ ان تنخواہوں میں طاقتور لوگوں خصوصاً محکمہ کے انتظامی افسران اور ہیڈ ماسٹر حضرات کا بھی حصہ ہے اور ایک حصہ غیر حاضر اساتذہ کو بغیر ڈیوٹی کے ملتا ہے ۔

اس لیے حکومت کے گزشتہ ادوار کے اقدامات کامیاب نہیں ہوئے اس کے برعکس دو انتظامی افسران نے مقامی طورپر کارروائی کی جس کے اچھے نتائج سامنے آئے ۔ اگر اسی طرح ہر ضلع میں یہ کارروائی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بھوت اساتذہ کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم نہ ہوجائے لیکن اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ صوبائی سطح پر جو مافیا کام کررہی ہے اس کا مکمل خاتمہ کیا جائے ۔

نیم خواندہ وزیر سے یہ کام نہیں لیا جا سکتا اس کے لیے بلوچستان کو ایک نیک ایماندار اور تعلیم یافتہ وزیر کی ضرورت ہے جو نہ صرف ان مسائل کو سمجھتا ہو بلکہ ان کو حل کرنے کی قابلیت بھی رکھتا ہو ۔ اس لیے اصلاحات کے نفاذ کے لئے بھی قابل ترین وزیر اور سیکرٹری تعلیم کی ضرورت ہے ۔

ہم وزیراعلیٰ سے یہ توقع رکھتے ہیں وہ اسی طرح کی کارروائی کے احکامات صوبہ بھر کے ضلعی افسران کو دیں گے کہ وہ ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں یہ تمام اقدامات اٹھائیں غیر حاضر اساتذہ کی پہلے تنخواہیں روکی جائیں اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے اور مسئلہ حل نہ ہو تو ان بھوت اساتذہ کو ملازمتوں سے بر طرف کیاجائے اور ان کی جگہ زیادہ قابل اور تعلیم یافتہ نوجوان اساتذہ کو تعینات کیاجائے ۔

آئندہ چند ہفتوں میں صوبائی بجٹ پیش ہو نا ہے جس میں توقع ہے کہ تعلیم کی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا ۔ ہماری تجویز ہے کہ اس سال زیادہ سے زیادہ رہائشی اسکولوں کے منصوبے بنائے جائیں اور ہر صوبائی اسمبلی رکن کے ذاتی فنڈ سے اس کے علاقے میں چار چار رہائشی اسکول بنائے جائیں تاکہ ڈراپ آؤٹ کے مسئلے کو حل کیاجاسکے بچہ پہلی جماعت سے لے کر 12 ویں جماعت تک ایک ہی اسکول میں پڑھے ۔

اگر ہو سکے تو ایم پی ایز کے تمام فنڈ تعلیم ‘ صحت معاشی ترقی خصوصاً ماہی گیری ‘ گلہ بانی اور زراعت کی ترقی پر خرچ کی جائے ۔ تمام ایم پی اے حضرات کو کہاجائے کہ وہ صرف اور صرف قانون سازی پر توجہ دیں اور صوبے کے لئے بہترین قوانین بناکر تاریخ میں اپنا نام رقم کرائیں ۔

ان ایم پی اے حضرات سے کہاجائے کہ وہ ان علاقوں کی نشاندہی کریں جہاں پر یہ رہائشی اسکول قاہم ہونے ہیں جب یہ سکول ایم پی اے حضرات کے فنڈ سے بن جائیں تو ان کو چلانے کے اخراجات صوبائی حکومت ادا کرے اس کے لئے ابھی سے اساتذہ کی تربیت کا مربوط نظام بنایا جائے ۔