|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2017

ایران کے صدارتی اور مقامی انتخابات سے ثابت ہوا کہ پورے خطے میں ایران واحد جمہوری ملک ہے جہاں پر مقتدر قوتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ابراہیم رئیسی مقتدرہ اور عدلیہ کے جبکہ صدر حسن روحانی اصلاح پسند افراد کے نمائندہ ہیں ۔

حسن روحانی نے 57فیصد براہ راست ووٹ لے کر اپنے مخالف ابراہیم رئیسی کو زبردست شکست سے دو چار کیا ۔ ایران کے صدارتی انتخابات کا ایک اہم ترین پہلو یہ تھا کہ چار کروڑ ایرانیوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔

ایران میں رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعداد پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ ہے اس طرح ستر فیصد لوگوں نے اپنا حق رائے دہی بلا کسی خوف و خطر، دھمکی اور دھونس کے استعمال کیا ۔ پورے ملک بھر میں بوگس ووٹنگ ‘ بیلٹ بکس توڑنے اور چھین کر لیجانے کے واقعات نہیں ہوئے اور نہ ووٹوں کی خرید و فروخت ہوئی جو بر صغیر میں عام ہے ۔

تامل ناڈو میں ایک وزیر کو رنگے ہاتھوں اس وقت پکڑا گیا جب وہ لوگوں کے ووٹ خریدنے کی کوشش کررہے تھے ۔

وزیر صاحب ابھی تک جیل کی ہوا کھا رہے ہیں لیکن اس قسم کے واقعات ایران میں نہیں ہوتے۔ دولت کی نمائش یا انتخابات میں دولت کے استعمال کی شکایات نہیں ملیں۔

لاہور کے ایک ضمنی انتخاب میں دو قومی اسمبلی کے امیدواروں نے تقریباً چار ارب روپے خرچ کیے۔ یہ مقابلہ تحریک انصاف اور حکمران جماعت مسلم لیگ کے درمیان ہوا تھا جس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق انتخابات جیت گئے ۔

ایران کی اندرونی سیاست میں یہ انتخابات ہر اعتبار سے سے اہم تھے ۔ روحانی آزاد معیشت کے علمبردار اور دنیا بھر سے ملکوں اور اداروں کو ایران میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے رہے ہیں ۔

ان کی بڑی کامیابی دنیا کے طاقتور ترین ممالک اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ ہے اس کے بعد بعض مغربی ممالک نے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں اٹھا لیں اور تقریباً دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری صرف وسطی ایران میں کی گئی جبکہ ساحل مکران پر تو بیرونی سرمایہ کاری کا اندازہ پچاس ارب سے زیادہ لگایا جارہا ہے ۔

ساحل مکران اور خصوصاً چاہ بہار کی بندر گاہ اور اس سے متعلقہ صنعتی اور تجارتی اداروں میں سرمایہ کاری ہوئی ہے اس میں جاپان بیس لاکھ ٹن اور جنوبی کوریا پندرہ لاکھ ٹن کے دو بڑے بڑے اسٹیل ملز تعمیر کررہے ہیں ۔

بھارت ایران گیس پر منحصر کھاد کا کارخانہ لگا رہا ہے یہ سب کچھ آزاد معاشی پالیسی کے علاوہ عوام کی حمایت سے امن اور سلامتی کے قیام کی برکت ہے ۔

دوسری جانب شدت پسند عناصر کی توجہ شام ‘ عراق اور یمن میں جنگ و جدل پرہے ۔ مقتدرہ نے ایرانی رضا کار شام ‘ عراق میں روانہ کررکھے ہیں بلکہ اعلانیہ طورپر ان کو بھیجا گیا ہے ۔

جبکہ غیر اعلانیہ طورپر بعض رضا کار یمن میں بھی بر سر پیکار ہیں سرکاری طورپر اس کی سختی کے ساتھ ایران تردید کرتا ہے مگر حوثی باغیوں کو ایران کی خصوصاً شدت پسندوں کی حمایت حاصل ہے ۔

ا س کا اندازہ حوثی باغیوں کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت سے لگایا جا سکتا ہے، آئے دن حوثی باغی دور مار کرنے والے میزائل سعودی عرب پر فائر کرتے رہتے ہیں اور حال ہی میں باب المندب کے قریب سعودی عرب کا ایک بحری جہاز ڈبو بھی دیا تھا اس پر میزائل فائر کیے گئے تھے ۔

اس بار یہ معلوم ہوتا ہے کہ روحانی کی حکومت اپنی جمہوری قوت کو استعمال میں لاتے ہوئے ایران کی تنہاہی کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ عرب ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بحال ہوجائیں اور خطے سے جنگ کے خطرات کاٹل جائیں اور ایران ایک طاقتور اور امیر ملک بن کر ابھرے ۔

آج کل بھی ایران ایک پسماندہ ملک نہیں ہے یہ ایک جدید ترقی یافتہ ملک ہے ۔ اگر حکومت اپنے وسائل جنگوں کے بجائے معاشی ترقی پر خرچ کرے تو ایران ایشیاء کا جرمنی بن سکتا ہے۔