کوئٹہ: بلوچستان میں اربوں روپے کی کرپشن کا نیا کیس سامنے آگیا۔سبی،نصیرآباد،جعفرآباد اور خاران میں تین ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اخراجات اور بلز کا ریکارڈ چوری یا غائب کرلیاگیا۔
یہ انکشاف چیف سیکریٹری بلوچستان کی ہدایت اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سفارش پر 2016ء میں بنائی گئی محکمہ خزانہ کی مانیٹرنگ کمیٹی کی رپورٹس میں ہوا ہے۔ روزنامہ آزادی کو ملنے والی رپورٹس کی کاپیاں اور دیگر دستاویزات کے مطابق کے مطابق نصیرآباد،جعفرآباد ، سبی اور خاران میں کمپیوٹرائزڈ نظام کے باوجود 2011سے 2016تک تین ارب روپے سے زائد کی رقم قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مینوئل طریقے سے جاری کی گئی۔
مانیٹرنگ کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ سبی میں ایک ارب 53کروڑ، جعفرآباد میں 90کروڑ، نصیرآباد میں 55کروڑ اور خاران میں 10کروڑ روپے سرکاری خزانے سے نکالے گئے لیکن اخراجات کے بل اور دیگر ریکارڈ غائب اور چوری کرلیا گیا۔
رپورٹ کی تفصیلات کے مطابق سبی میں مالی سال2012-13ء کے دوران48کروڑ48لاکھ64ہزار818، مالی سال 2013- 4میں50کروڑ12لاکھ5ہزار731روپے مینوئل طریقے سے جاری کئے گئے جبکہ2014-15ء میں39 کروڑ 6لاکھ86ہزار74کروڑ ،2015-16ء میں 15کروڑ7لاکھ11ہزار152روپے بے ضابطہ طریقے سے جاری کئے گئے۔
گزشتہ سال 29اکتوبرسے4نومبر تک محکمہ خزانہ کی مانیٹرنگ کمیٹی نے سبی کا دورہ کیا تو بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا۔ کمیٹی نے اخراجات کے بل اور بجٹ کنٹرول رجسٹرز مانگے تو انہیں ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔خلاف ضابطہ ادائیگیوں میں سب سے زیادہ ادائیگیاں بلوچستان کانسٹیبلری ، تعلیم، صحت، جنرل ایڈمنسٹریشن، زراعت، خوراک، سی اینڈ ڈبلیو کی جانب سے کی گئیں۔
اس کے علاوہ جعفرآباد میں خزانہ آفس کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے دوران مانیٹرنگ کمیٹی کو معلوم ہوا کہ 2010ء میں ضلع میں کمپیوٹرائزڈ طریقہ رائج ہوا لیکن اس کے بعد بھی ضلعی خزانہ آفس سے 90کروڑ54لاکھ روپے مینول طریقے سے جاری کئے گئے ۔کمیٹی کو اخراجات کی دستاویزات بلز وغیرہ فراہم نہیں کئے گئے۔
ان میں 25ادائیگیاں سیکنڈری ایجوکیشن ،15ادائیگیاں تعلیم، آٹھ زراعت، چھ ادائیگیاں ایڈمنسٹریشن آف جسٹس ڈیپارٹمنٹ،اوقاف، سوشل سیکورٹی اینڈ سوشل ویلفیئراور تین رورل ڈویلپمنٹ کی تین تین اداگئیاں شامل ہیں۔ سوشل پروٹیکشن، دو انڈسٹریز، ایری گیشن، پبلک ہیلتھ سروس، صوبائی ایکسائز، پراسکیوشن ، پاپولیشن،پولیس، لینڈ ریونیو، جیل خانہ جات کی جانب سے ایک ادائیگی مینوئل طریقے سے کی گئی ۔
کمیٹی نے سفارش کی کہ سیکریٹری خزانہ کی سربراہی میں تشکیل دی گئی اعلیٰ اختیارتی کمیٹی اس معاملے کی تحقیقات کریں اور ریکارڈ غائب کرنیوالے آفیسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کے مطابق جعفرآباد میں تنخواہوں کی مد میں 89لاکھ روپے دو بار ادا کئے گئے۔ یعنی مینوئل طریقے کے بعد کمپیوٹرائزڈ نظام سے بھی ایک ہی مد میں ادا کئے گئے۔
نصیرآباد میں 55کروڑ35لاکھ روپے مینوئل طریقے سے ادا کئے گئے۔ خاران میں بھی10کروڑ47لاکھ روپے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اکاؤنٹنٹ جنرل کی منظوری کے بغیر جاری کئے گئے ۔ متعلقہ بلز کا مکمل ریکارڈ بھی کمیٹی کو پیش نہیں کیا گیا۔
محکمہ خزانہ کے ذرائع کے مطابق کمیٹی کی رپورٹس اور سفارشات چیف سیکریٹری بلوچستان اور صوبائی سیکریٹری خزانہ کو پیش کردی گئی ہیں تاہم اب تک کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔ جبکہ کمیٹی کے سربراہ کو دو روز قبل تبدیل کردیا گیا ۔