اسلام آباد: مالی سال 18-2017 کا وفاقی بجٹ پیش کردیا گیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جب کہ دفاع کیلیے 920 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے میں مالی سال 18-2017 کی بجٹ تقریر کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار منتخب حکومت پانچویں بار بجٹ پیش کررہی ہے۔
2013 میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اورعالمی بینک پاکستان کے ساتھ کام کرنے سے گریزاں تھا، مالی خسارہ 8 فیصد سے بڑھ چکا تھا، توانائی کا بحران حد سے زیادہ تھا لیکن رواں سال جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 5.3 فیصد ہے جب کہ ملک میں اس وقت ترقی کی بلند ترین شرح ہے، مالیاتی خسارہ آدھا رہ گیا۔
لوڈ شیڈنگ میں واضح کمی آئی ہے اور 2018 تک مکمل ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی میں ہر لحاظ سے بہتری آئی ہے اور پاکستان کی معیشت کا حجم 300امریکی ڈالر سے بڑھ گیا ہے جب کہ عالمی برادری کا ہم پر معاشی اعتبار مضبوط ہوا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ رواں مالی سال میں 700ارب روپے کے زرعی قرضے دیے گئے، اوور سیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 40 فیصد اضافہ ہوا اور حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی گئی جب کہ پاکستان کی ٹیکس وصولیوں میں 81 فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 21ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، پاکستان میں فی کس آمدن 1631 ڈالر رہی، پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں 97ارب روپے کی سرمایہ کاری ہورہی ہے اور پاکستان کونمایاں اصلاحات کرنےوالے 10 ممالک میں شامل کیا گیا جب کہ یکم جون سے پاکستان ایمرجنگ مارکیٹ بن جائے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 18-2017 میں جی ڈی پی کی شرح میں 6 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے اور بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 4.1 فیصد ہے، سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک الاؤنس اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جب کہ کم سے کم اجرت 14 سے بڑھا کر 15 ہزار روپے کردی گئی ہے۔
ایف بی آر کے ریونیو ٹارگٹ میں 14 فیصد اضافہ جب کہ پی ایس ڈی پی کے لیے ایک ہزار ایک ارب مختص کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 68لاکھ مستحق افراد مستفید ہوں گے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 121ارب روپے، لیپ ٹاپ اسکیم کیلیے 20ارب روپے، بجلی پر سبسڈی کیلیے 118ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں دفاع کے لیے 920 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جب کہ مسلح افواج کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد مجموعی اضافہ کیا گیا، 10 فیصد اضافہ تنخواہ اور 10 فیصد الاؤنس کی مد میں دیا گیا۔
شہدا، جنگ میں زخمیوں کے لواحقین کے لیے امدادی پیکچ پر ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ وفاقی بجٹ میں ریلوے کے لیے 42.9 ارب روپے مختص کرنے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلیے 35.7 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جب کہ کپڑے کی کمرشل درآمد پر سیلز ٹیکس 6 فیصد کرنے، سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کرنے کی تجویز ہے تاہم موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی درآمد پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پان چھالیہ پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح 10 سے 25 فیصد کرنے، الیکٹرک سگریٹ پر 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز ہے جب کہ وزیراعظم کی صوابدیدی گرانٹ کے لیے 30 لاکھ روپے مختص اور صاف پانی کے منصوبوں کے لیے 38ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ترقیاتی بجٹ میں 40 فیصد اضافہ کیا گیا اور سی پیک منصوبوں کیلیے 180 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے جب کہ بیت المال کا بجٹ 4 سے بڑھا کر 6 ارب روپے کرنے اور انفرااسٹرکچر کے لیے پی ایس ڈی پی کا 67 فیصد مختص کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسانوں کے لیے قرضوں کا حجم ایک ہزار ایک ارب روپے کیاجا رہا ہے اور فی کسان 50ہزار روپے تک قرضہ دیا جائے گا جب کہ توانائی کے شعبوں کے لیے 401 ارب، صحت کے لیے 49 ارب روپے اور نیشنل ہیلتھ پروگرام کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، وفاقی سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم 1ہزار1 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ ٹیکس وصولیوں کی مد میں 4330.5 ارب ، دیگر ٹیکسوں کی مد میں 317.5 ارب ، ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4013 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، ٹیکس اور شرح نمو کے درمیان 15 فیصد تناسب حاصل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں نان فائلرز کے لیے مختلف مد میں ٹیکس کی شرحیں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کو اپیل کا حق دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
جب کہ اسٹاک ایکسچینج میں شامل کمپنیوں کوٹیکس کریڈٹ کی چھوٹ میں کمی، ڈیویڈنٹ پرانکم ٹیکس شرح 12.5 فیصد سے بڑھا کر15 فیصد کرنے کی تجویز شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 850 سی سی گاڑیوں کی رجسٹریشن پرودہولڈنگ ٹیکس 10ہزارسے کم کرکے 7500روپے اور 1300 سی سی گاڑیوں پرٹیکس 30 ہزارسے کم کرکے 25 ہزارروپے کرنے کی تجویز شامل ہے لیکن گاڑیوں پر ٹیکس میں کمی کا اطلاق ٹیکس ادا کرنے والوں پر ہوگا۔