|

وقتِ اشاعت :   June 1 – 2017

کوئٹہ: محکمہ تعلیم بلوچستان نے بولان کے اساتذہ سمیت139ملازمین کو گھوسٹ اور جعلی قرار دیدیا۔ تنخواہوں کی مد میں جاری کئے گئے کروڑوں کی تحقیقات محکمہ انٹی کرپشن سے کرانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ جعفرآباد اور پنجگور کے مزید ساڑھے سات سو اساتذہ کے خلاف بھی تحقیقات شروع کرنے کی منظوری دیدی گئی۔

محکمہ تعلیم بلوچستان کے حکام کے مطابق ڈپٹی کمشنر کچھی اور محکمہ خزانہ کی مانیٹرنگ کمیٹی نے ضلع کچھی (بولان) کے محکمہ تعلیم کے دو سو چالیس ملازمین کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے تحقیقات کی سفارش کی تھی۔ محکمہ تعلیم بلوچستان نے اس سلسلے میں ڈپٹی سیکریٹری جوڈیشل محکمہ سیکنڈری ایجوکیشن ہارون رشید اور ڈپٹی سیکریٹری ڈویلپمنٹ جمعہ خان پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔

کمیٹی نے ڈپٹی کمشنر اور ضلعی ایجوکیشن آفیسر کے ذریعے ملازمین کو نوٹسز ارسال کرنے کے ساتھ ساتھ اخبارات میں اشتہارات دے کر انہیں کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔کمیٹی کا اجلاس15اور16مئی کو سبی میں سماعت کی جس میں 240میں سے 101 ملازمین کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور اپنے تقرر نامے سمیت دیگر دستاویزات پیش کئے ۔

کمیٹی نے دستاویزات کو تصدیق کیلئے ڈائریکٹر ایجوکیشن (اسکولز) کو ارسال کردیئے اور ان سے دو ہفتوں کے اندر رپورٹ طلب کرلی۔ کمیٹی نے فزیکلی پریزنس کو ضروری قرار دیا تھا لیکن اسکے باوجود سرکاری اسکولوں کے جے وی ٹی ، ایس ایس ٹی اساتذہ سمیت محکمہ تعلیم کے 139ملازمین پیش نہیں ہوئے جس پر کمیٹی نے ان کا وجود ہی تسلیم نہ کرتے ہوئے انہیں گھوسٹ اور جعلی قرار دے دیا۔

ان ملازمین کو 1999،2000،2003،2004اور2008میں محکمہ تعلیم کے ملازمین کی فہرست میں شامل کیا گیا اور ان کے نام پر تنخواہوں کی مد میں اب تک کروڑوں روپے تنخواہیں جاری ہوچکی ہیں۔محکمہ خزانہ نے ملازمین کی تنخواہیں بند کرتے ہوئے مزید تحقیقات کیلئے کیس محکمہ انٹی کرپشن کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ محکمہ تعلیم کے حکام نے مزید بتایا ہے کہ سیکریٹری تعلیم کی منظوری سے بلوچستان کے مزید دو اضلاع جعفرآباد کے 450اورپنجگور کے306مشتبہ اساتذہ سے متعلق تحقیقات بھی جلد شروع کی جارہی ہے۔

دریں اثناء وزیر تعلیم بلوچستان عبدالرحیم زیارتوال نے رابطہ کرنے پر تصدیق کی کہ محکمہ تعلیم نے ضلع کچھی کے دو سو سے زائد اساتذہ سے متعلق تحقیقات کی ہے اور اس میں سے کئی کو گھوسٹ قرار دیا ہے اور باقیوں سے متعلق مزید کارروائی کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گھوسٹ قرار دیئے گئے ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں کروڑوں روپے کہاں گئے اس معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں گی اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔