|

وقتِ اشاعت :   June 1 – 2017

اسلام آباد: صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا ہے کہ گزشتہ پارلیمانی سال میں کئی اہم اقتصادی کامیابیاں حاصل ہوئیں اور تاریخ اس پارلیمنٹ کا کردار ہمیشہ یاد رکھے گی۔

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا، ‘پاکستانی جمہوریت نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں، جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا حقیقی مقاصد کے حصول کی طرف سفر جاری ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پارلیمنٹ نے مشکل حالات میں قومی اتحاد کا ثبوت دیا، جس کی وجہ سے تاریخ اس پارلیمنٹ کا کردار ہمیشہ یاد رکھے گی’۔

مشترکہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف، مسلح افواج کے سربراہان، وزراء اعلیٰ، گورنرز، وفاقی وزراء اور سفارت کار بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے۔

صدر مملکت ممنون حسین نے موجودہ پارلیمنٹ سے چوتھی بار خطاب کیا۔

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 56 کے تحت نئے پارلیمانی سال کا آغاز 17 مارچ کو ہوتا ہے اور صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب روایتی آئینی ضرورت ہے، گزشتہ برس صدر نے 4 جون کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا۔

ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے صدر ممنون حسین کا کہنا تھا ‘میں توقع کرتا ہوں کہ معاشرے کا ہر طبقہ اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر کام جاری رکھے گا’۔

صدر مملکت نے کہا کہ سیاسی عمل کو افراتفری اور گروہی مفاد سے آزاد ہونا چاہیئے، اختلاف رائے غیر فطری نہیں لیکن یہ خیر کا باعث ہونا چاہیئے اور اختلاف رائے سے ترقی کا عمل رکنا نہیں چاہیے۔

ان کا کہنا تھا، ‘قوم کے مختلف طبقات کے درمیان اختلاف رائے کا پیدا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں، لیکن اسے انتشار میں بدلنے کا راستہ پوری حکمت عملی کے ساتھ بند کردیا جائے تاکہ ملکی ترقی کو روکنے کا عمل ناکام بنایا جاسکے’۔

صدر مملکت نے اپنے خطاب کے دوران پاک-بھارت کشیدگی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ہندوستان لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی اختلاف مسئلہ کشمیر ہے جو برصغیر کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دینا ہے۔

انھوں نے ہندوستان کے جارحانہ طرزعمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خطے کے امن وامان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے، جس نے جاسوسی اور دہشت گردی سے خطے کے حالات خراب کیے۔

انھوں نے بھارت کی عدم شرکت کی بناء پر گذشتہ برس نومبر میں اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس کی منسوخی کے حوالے سے کہا کہ ‘یہ بدقسمتی ہے کہ بھارت کے رویے کی وجہ سے سارک کانفرنس منعقد نہ ہوسکی’۔

صدر مملکت نے کہا کہ ہم تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، لیکن بھارت نے پاکستان کی پرخلوص پیشکش کا کبھی مثبت جواب نہیں دیا۔

صدر مملکت نے گذشتہ روز افغان دارالحکومت میں ہونے والے خودکش حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے بغیر خطے میں استحکام نہیں آسکتا۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز افغانستان کے دارالحکومت کابل کے سفارت علاقے میں ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں 90 افراد ہلاک اور 400 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔

اپنے خطاب کے دوران صدر ممنون حسین نے ملک میں جاری ترقیاتی منصوبوں اور حکومتی کارکردگی پر بھی بات کی اور کہا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک)اور دیگر میگا منصوبوں پر کام جاری ہیں، جبکہ حال ہی میں بجلی کی پیداوار کے کئی منصوبے مکمل کیے گئے ہیں۔


اپوزیشن نے نعرے بازی کی اور اجلاس سے واک آؤٹ کیا—۔ڈان نیوزاپوزیشن نے نعرے بازی کی اور اجلاس سے واک آؤٹ کیا—


انھوں نے بتایا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کی اہم معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے، شرح نمو گزشتہ 10 سال کی بلند ترین سطح پر ہے اور عالمی بینک نے بھی پاکستان کو بہترین کارکردگی والی معیشتوں میں سے ایک قرار دیا ہے، تاہم غربت کے خاتمے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔

صدر مملکت نے ایوان کا بتایا کہ پاکستان کی برآمدات کچھ عرصہ سے مشکلات کا شکار ہیں تاہم زرمبادلہ کے ذخائر 23 ارب ڈالرز کی بلند ترین سطح پر ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ برس دفاعی شعبے کی کارکردگی نمایاں طور پر بہتر رہی۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات میں 3 گنا اضافہ کردیا گیا ہے اور ہمیں ان معاملات پر مزید نظر رکھنی ہوگی۔

خطاب کے دوران وژن 2025 کو ملک کے لیے اہم اقدام قرار دیتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں اسے متفقہ طور پر قومی منصوبہ قرار دیں۔

انھوں نے کہا کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں مزید توجہ کی ضرورت ہے، برآمدات میں اضافے کے لیے مسئلے کا حل نکالا جائے۔

صدر ممنون حسین نے کہا کہ زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن زراعت کے شعبے کو سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے، لہذا موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ ترقی کے دھارے میں سب کو شامل کیا جانا ضروری ہے، ان کا کہنا تھا کہ پیچھے رہ جانے والوں کو قومی دھارے میں لانے کا احساس قوی ہورہا ہے اور بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنے کے اقدامات جاری ہیں۔

انھوں نے زور دیا کہ معاشرے کا ہر طبقہ قومی تعمیر نو میں حصہ ڈالے۔

اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ اجلاس کے موقع پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا منصوبہ بنا رکھا تھا، یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی صدر کا خطاب شروع ہوا، اپوزیشن نے ‘گو نواز گو’ کے نعرے لگائے اور بعدازاں واک آؤٹ کیا۔

غیرملکی سفیروں اور مسلح افواج کے سربراہان کی شرکت کے باعث پارلیمنٹ ہاؤس کی سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔