سرکاری افسر اور اہلکار اگر چاپلوسی پر اتر آئیں تو وہ تمام حدیں پھلانگ لیتے ہیں ۔ بلوچستان کی معدنی دولت صرف اور صرف بلوچستان کے عوام اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے ہیں ، یہ کسی چین ‘ جاپان‘ امریکا اور روس کے لئے نہیں ہیں چین کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں ہونی چائیے کہ وہ بلوچستان کی معدنی دولت کا استحصال کرے۔ ہمارے سامنے دو واضح مثالیں موجود ہیں ۔
پہلا سندھک سونے اور تانبے کے ذخائر کا جس سے بلوچستان کے عوام کو ایک روپے کا بھی فائدہ نہیں پہنچا چین بڑی تعداد میں مزدور، کارکن چین سے لے کر آیا ، مقامی لوگوں کو روزگار سے محروم رکھا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ چین نے سندھک کی ذمہ داریاں سنبھالتے وقت اخبار نویسوں کے سامنے اعلان کیا تھا کہ چین کی کمپنی سندھک میں ریفائنری قائم کرے گی اس کے لئے وہ حکومت پاکستان کو دو کروڑ ڈالر یا بیس ملین کا قرضہ فراہم کرے گا یہ ریفائنری سندھک کے مقام پر تانبے کو سونے سے الگ کرے گا اس سے حکومت پاکستان اور عوام کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہاں سے کتنی مقدار میں سونا اور کتنی مقدار میں تانبہ حاصل ہوا۔
15سال گزر گئے ،چین نے یہ ریفائنری بلوچستان میں قائم نہیں کی کیونکہ اس کی ایسی کوئی نیت ہی نہیں تھی۔سندھک سے پوری پیداوار کو چین لے جایا گیا اور وہاں سے سونے کو تانبہ سے الگ کرکے ساری دولت چین ہڑپ کرگیا۔
نہ حکومت پاکستان کو معلوم کہ کتنا سونا حاصل ہوا اور نہ اس کو اس سے کوئی خاص دکچسپی کیونکہ یہ معدنی دولت بلوچستان کے عوام کی تھی جو ہمیشہ سے سرکش رہے ہیں لہذا ان کا جتنا ممکن ہو استحصال کیا جائے اور اگر یہ استحصال چین کرے توپھر سب کچھ جائز ہے۔
بلوچستان کے عوام کو یہ تلخ ترین تجربہ ہوا کہ چینی نا قابل اعتبار بزنس پارٹر ہیں سب سے پہلے بے ایمانی یہ کہ انہوں نے ریفائنری نہیں لگائی اور اس کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں چینی کارکن سندھک اور دودرزنک منصوبہ پر لائے اور مقامی لوگوں کا حق روزگار چھین لیا ۔
گزشتہ 16سالوں سے گوادر چینی کمپنی کے پاس ہے ،وہاںآج تک ترقی نظر نہیں آئی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ چینی اور پاکستانی حکام نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ گوادر کی ترقی کی رفتار کو خوفناک حد تک کم سے کم رکھیں گے تاکہ یہ بندر گاہ اگلے کئی دہائیوں تک کام میں نہ آسکے ۔
لاہور ‘ پنڈی ‘ اسلام آباد موٹر وے صرف 8ماہ میں مکمل ہوگیا اور اس کے مقابلے میں گزشتہ 16سالوں سے گوادر کو پینے کا پانی فراہم نہ ہو سکا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گوادر کی ترقی کی رفتار کیا ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے اگلے صدی میں یہ منصوبہ مکمل ہوگا اس لیے چینی حکومت اور اس کی کسی کمپنی کو بلوچستان میں کسی صورت معاشی آزادی نہیں ملنی چائیے کیونکہ بلوچستان کے عوام کا اعتماد چین سے اٹھ چکا ہے ۔
لہذا سرکاری ملازمین چاپلوسی بند کریں اور چین کی حمایت میں اپنے مالکوں سے بھی دو ہاتھ آگے نہ بڑھیں ۔ بلوچستان کی معدنی دولت صرف بلوچستان کے عوام کی ہے ، اس کو محض ڈھائی فیصد رائلٹی پر وفاقی حکومت کے حوالے نہیں کیا جاسکتا جیسے سندھک کے ساتھ کیا گیا اور ساری دولت چینی لے گئے اور جو کچھ باقی بچ گیا تو وہ وفاق کے حصے میں آیا اور بلوچستان اپنی ہی دولت سے خالی ہاتھ رہا۔
ا س لیے بلوچستان کی معدنی دولت کو صرف حکومت بلوچستان استعمال کرے۔ ہم نے انہی کالموں میں یہ مشورہ بھی دیا تھاکہ بین الاقوامی مارکیٹ سے قابل ترین ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں ۔
صاف اور ایماندار افراد پر مشتمل ایک افسر ان کی ٹیم بنائی جائے اور اس کے ذمے یہ کام لگایا جائے کہ وہ سندھک کو چلائے اور چینیوں کی مکمل چھٹی کرے ۔ ریکوڈک بھی اس ادارے کے ماتحت ہو تاکہ پوری کی پوری معدنی دولت کسی ٹھگ شخص اور کمپنی کے ذاتی منافع کا حصہ نہ بنے ۔
ہم سیاسی پارٹیوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس کی حمایت کریں گی کہ تمام بڑے بڑے پروجیکٹ حکومت بلوچستان کی ملکیت ہوں اور اس کا تمام تر منافع جو کھربوں ڈالر میں ہوگا عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے۔
بہر حال ہم چین کی معدنی شعبہ میں سرمایہ کاری کے مخالف ہیں اور اس کے حق میں ہیں کہ موجودہ معاہدے ختم ہوں ،چین سے پروجیکٹس واپس لیے جائیں ۔پاکستانی حکمران پاگل ہوچکے ہیں کہ وہ ڈیڑھ کروڑ چینیوں کو پاکستان لانا چاہتے ہیں، مقامی لوگوں کو بے روزگار کرنا چاہتے ہیں ۔
ہم صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ چینی کارکنوں کو بلوچستان آنے کی اجازت ہر گز نہ دے، ہاں صرف ماہرین کو آنے کی اجازت ہو، لیبر فورس کو نہیں۔ چینی مزدوروں کی بلوچستان میں داخلہ پر پابندی ہونی چائیے اور سیاسی جماعتیں بھی اس قسم کے فیصلوں کی مزاحمت کریں بلکہ اس پر قانون سازی کریں۔’’چین کے نظام کو دور سے سلام ‘‘ کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔