اطلاعات ہیں کہ پاکستان بھر میں ساڑھے تین ہزار جعلی ادویات کی فیکٹریاں ہیں جو سندھ‘ پنجاب اور کسی حد تک کے پی کے میں کام کررہی ہیں ۔یہ فیکٹریاں جعلی ادویات تیار کررہی ہیں۔
خام مال چین ،بھارت اور دوسرے ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے بعد ازاں ان سے جعلی اور غیر معیاری ادویات تیارکی جاتی ہیں اور حکومتی اداروں کی سرپرستی میں فروخت کی جاتی ہیں ۔ اخباری اطلاع کے مطابق ان میں35فیصد مالکان طاقتور سیاسی لوگ اور پارلیمان کے اراکین ہیں ۔
21فیصد اسپتالوں کے مالکان ہیں اور بعض جعلی ادویات کی فیکٹریوں کے مالک ڈاکٹر ہیں۔ یہ کاروبار انتہائی وسیع پیمانے پر ہورہا ہے اور آج تک اس فراڈ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
یہ کام صوبائی حکومت اور ایف آئی اے کا ہے کہ ان تمام الزامات کی تحقیقات کرے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوائے۔ ہم یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ عدالت عالیہ صوبوں میں اور سپریم کورٹ وفاق کی حد تک اس جعلی ادویات کے کاروبار کا نوٹس لے بلکہ یہ حکومت اور ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ادویات اصلی ہیں جعلی نہیں،اگر ایک بھی جعلی یا غیر موثر دوا بازار میں فروخت ہواتو اس کی ذمہ داری صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر ہے ۔
پنجاب میں وزیر صحت کی سربراہی میں فیکٹریوں پر چھاپے مارے گئے اور درجنوں جعلی ادویات کی فیکٹریاں پکڑی گئیں اور ان کو سیل کردیا گیا ۔ حالیہ مہینوں میں کوئٹہ میں بھی ایسی کارروائی شروع کی گئی، درجنوں ادویات کی دکانوں پر چھاپے مارے گئے ، جعلی اور غیر رجسٹرڈ ادویات برآمد کی گئیں ۔
ان کے مقدمات مقامی ڈرگ عدالت میں زیر سماعت ہیں مجموعی طورپر مقامی ڈرگ کورٹ کی کارکردگی بہت اچھی ہے اس سے متعلق ابھی تک شکایات نہیں ملی ہیں اور امید کرتے ہیں کہ انسانیت کے مجرموں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی ۔
قانون شکن ادویات دکانوں کے مالکان یا فیکٹری مالکان کو جرم ثابت ہونے پرعبرت ناک سزائیں دی جائیں گی ،ان کو زندگی بھر جیل میں رکھا جائے اور ان کی تمام جائیدادیں ضبط کرلی جائیں تاکہ دوسرا کوئی شخص یہ ہمت نہ کرے کہ وہ انسانی جانوں سے کھیلے اور جعلی ادویات کھلے عام فروخت کرے۔
کوئٹہ وہ واحد شہر ہے جہاں پر ہر دوسری دکان میڈیکل اسٹور ہے جہاں پر اکثر جعلی اور غیر معیاری ادویات فروخت کی جارہی ہیں ۔ جعلی ادویات کا سب سے بڑا خریدار حکومت خود ہے ۔ کرپٹ افسران وہ تمام جعلی ادویات خریدتے ہیں ، حکومت کے اپنے اسٹور ز ہیں ہر دوا کو چیک کیاجائے ۔
دوا جعلی اور غیر معیاری ثابت ہونے پر متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ اس کو گرفتار کیاجائے اور اس پر مقدمہ چلایا جائے ۔اور ایسی کرپٹ افسر سے کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے تاکہ سرکاری اسپتالوں میں معیاری اور اصلی ادویات فراہم ہوں ۔ خصوصاً جان بچانے والی ادویات کے حوالے سے تو رتی بھر کوتائی کی گنجائش نہیں۔
ہم یہ امید کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان تمام سرکاری اسپتالوں میں استعمال ہونے والی ادویات کی ٹیسٹ کے احکامات جاری کروائیں گے اور اگر یہ ثابت ہوا کہ ادویات جعلی ہیں یا غیر معیاری ہیں تو متعلقہ افسر ‘ ڈاکٹر کو گرفتار کیاجائے اور اس پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مقدمہ قائم ہو تاکہ سزا کی صورت میں مجرم زندگی بھر جیل میں رہے اور اس کی تمام جائیداد بھی ضبط کر لی جائے۔