جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے اس بات کی اہمیت میں بھی اضافہ ہورہا ہے کہ بلوچستان کی حکومت میں معاشی امور کی ایک الگ وزارت قائم کی جائے اس میں اہل سرکاری اہلکاروں ‘ ماہرین معاشیات کی ایک وسیع ٹیم بنائی جائے جو بلوچستان کے ترقی اور معاشی منصوبہ بندی کی ذمہ داریاں سنبھالے اور بلوچستان کی معاشی ترقی کی منصوبہ بندی کرے اور ان پر عمل درآمد کرائے۔
یہ جنرل کیڈر کے افسروں کی بس کی بات نہیں ہے کہ وہ معاشیات کے پیچیدہ امور کو حل کریں یا بلوچستان کو ملنے والے بڑے بڑے معاشی منصوبوں کو چلائیں خصوصاً سندھک کا منصوبہ آئندہ چند ماہ میں حکومت بلوچستان کے حوالہ کیاجائے گا۔
سندھک کے منصوبے کو قطعاً دوبارہ چینی کمپنی کو نہ دیاجائے بلکہ حکومت بلوچستان ابھی سے اس کی تیاری کرے اور اس کو خود چلائے ۔ چینی کمپنی کو فوری طورپر سندھک پروجیکٹ سے الگ کردیاجائے کیونکہ ابتدائی سالوں میں سندھک پروجیکٹ کو مقامی لوگوں نے چلایا تھا ۔
تعمیر کے دور سے لے کر ٹرائل پروڈکشن تک پاکستان انتظامیہ کے ماتحت رہا تھا اوراس سے کروڑوں روپے کا منافع کمایا تھا اس لیے سندھک کا پر اور گولڈ کو چینیوں کے بغیر چلایا جا سکتا ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت بلوچستان ابھی سے مکمل تیاری کرے ۔
اہل افسران ‘ اور ماہرین معاشیات کی ٹیم بنائی جائے ،بین الاقوامی منڈی سے اہل ترین ماہرین تلاش کرکے سندھک کو ان کے حوالے کیاجائے تاکہ تانبہ اور سونے سے حاصل ہونے والی پوری آمدنی بلوچستان کی حکومت اور عوام کے لئے ہو ۔ اس ٹیم کو یہ ذمہ داریاں بھی دی جائیں کہ وہ سندھک کے پلانٹ پر ایک ریفائنری بھی نصب کرے تاکہ تانبے سے سونے کو الگ کرنے کاکام بھی بلوچستان کی سرزمین پر ہو بلکہ موجودہ پلانٹ کو توسیع دے کر ریکوڈک کے ذخائر کو بھی سندھک میں صاف کیاجائے۔
یہ دونوں کھربوں ڈالر کے منصوبے ہیں ، ان کو غیر ملکیوں کے سپرد نہ کیاجائے ، ایسا کرنا ایک قومی جرم ہوگا، میاں نواز شریف اور جنرل پرویزمشرف پہلے ہی قومی مجرم ہیں نواز شریف نے چوہدری نثار کی مشاورت سے سندھک پروجیکٹ کو بند کردیا تھا اور جنرل مشرف نے اس کو چینیوں کو تحفے میں دے دیا تھا اس سے مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔
بلکہ چینی سینکڑوں کی تعداد میں مزدور بھی چین سے لائے تھے اس لیے بڑے بڑے منصوبوں پر عمل کرنے کے لئے معاشی امور کی وزارت کی اشد ضرورت ہے ۔ بلوچستان سے اہل ماہرین اقتصادیات کا بڑا پول قائم کیاجائے جو صوبے بھر میں چھوٹے چھوٹے کارخانے اور پکانٹس لگائے اور چلائے تاکہ بلوچستان سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے اور ہر اہل آدمی کو مناسب روزگار مل سکے ۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ ایم پی اے فنڈ کے فضول اخراجات بند کیے جائیں اور فنڈ کو صرف اور صرف معاشی منصوبہ بندی پر خرچ کیاجائے ۔ پچیس فیصد مقامی کونسلوں کو دینے کے بعد تمام فنڈ کو معاشی اسکیموں پر استعمال کیاجائے ۔
اس کے لیے کارخانوں کا قیام ضروری ہے ۔ چھوٹے چھوٹے کارخانے اور پیدا واری یونٹ چلائے جائیں ۔ ایم پی اے حضرات کو صرف قانون سازی کرنی چائیے ۔ ایم پی اے فنڈ بد عنوانی کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے ۔
کرپٹ حضرات الیکشن صرف اس لیے لڑتے ہیں کہ لاکھوں خرچ کرکے منتخب ہوجائیں اور بعد میں اربوں کمائیں،اگر وزیراعلیٰ مزاحمت کریں تو اس کو بلیک میل کیاجائے ۔ گزشتہ چالیس سالوں میں اقلیتی وزیر اعلیٰ ایم پی اے اور وزراء کے ہاتھ بلیک میل ہوتا آیا ہے ۔
اس لیے اچھی حکمرانی بلوچستان میں ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ صاف اور شفاف سیاست کے لئے ضروری ہے کہ ایم پی اے ترقیاتی فنڈ کو اگلے مالی سال سے بند کیاجائے اور سارے فنڈ کو معاشی امور کے وزارت کے حوالے کیاجائے تاکہ وہ معاشی ترقی کا ایک جامع منصوبہ تیار کرے اور اس پر عمل بھی کرے ۔
معاشی امور سے متعلق وزارت کی ضرورت
وقتِ اشاعت : June 12 – 2017