کوئٹہ صوبے کا دارالحکومت ہے مگر ابھی تک حکمرانوں کی حد تک یہ ایک محفوظ شہر نہیں بن سکا ہے ۔ کوئٹہ کو محفوظ شہر بنانے کیلئے انسانی وسائل پر انحصار کیے بغیر ٹیکنالوجی اور اسلحہ کے استعمال اور خریداری پر توجہ دی جارہی ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پہلے انسانی وسائل پر توجہ دے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے طاقت کی نمائش اور طاقت کے بے جا استعمال سے پر ہیز کریں تاکہ عوام کا اعتبار ان ادارو ں پر بحال ہو ۔ 1400 سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب سے امن عامہ کو کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا، مجرم واردات کے بعد دور دراز علاقوں میں یا افغانستان فرار ہوجاتے ہیں تو ان کی تصویروں کا کیا کریں گے لہذا یہ کیمرے کسی کام کے نہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی میں بعض سنسنی خیز واقعات ہوئے دہشت گردی کی ان کارروائیوں میں سیکورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا ۔ سی سی ٹی وی کیمروں نے تفتیش میں کوئی مدد نہیں کی ۔کیمرے کے ذریعے ملزمان شناخت نہیں ہوسکتے ،یہ دوسرے ذرائع تھے کہ ملزمان کا تعاقب کیا گیا اور ان کو گرفتار کیا گیا ۔
کیمروں نے جو تصاویر بنائیں وہ تمام کے تمام قابل شناخت نہیں تھیں۔ افغان خانہ جنگی کی ابتداء سے لے کر آج تک پاکستان کے دو سرحدی شہر کوئٹہ اور پشاور دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں ۔ دشمن قوتوں نے کوئٹہ اور پشاور کو نشانہ بنایا ہوا ہے ۔ان دونوں سرحدی شہروں میں حکومت نے خود دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی ، جتنے بھی دہشت گردی اور خودکش حملے ہوئے ان میں افغان باشندے ملوث پائے گئے۔
جس وقت افغان مہاجرین بڑی تعداد میں پاکستان آئے ان کو کیمپوں میں نہیں رکھا گیا، ان کو افغان خانہ جنگی میں ایک اثاثہ تصور کیا گیا ، ان کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ پاکستانی شہریوں کے ساتھ گھل مل کر رہیں ۔ اس وقت بلوچ رہنماؤں نے اس بات کی مخالفت کی تھی اور صدر پاکستان اور آرمی چیف کو اسی وقت متنبہ کیا تھا کہ یہ کرائے کے لوگ ہیں اگر کسی دوسری قوت نے ان کو زیادہ رقم پیش کی تو وہ بندوق کا رخ پاکستان کی طرف کریں گے اور پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کریں گے ۔
مگر ضیاء الحق نے نہ صرف ان مجاہدین کو شہروں میں پناہ دی بلکہ ان کو اسلحہ اور تربیت بھی دی۔ آج وہی لوگ ریاست پاکستان کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس پس منظر میں کوئٹہ اور پشاور سیف سٹی یا محفوظ شہر نہیں بن سکتے جب تک غیر قانونی تارکین وطن کو ملک سے نکال نہ دیں، اگر فوری طورپر ممکن نہ ہو تو ان سب کو کیمپوں میں رکھیں اور ان کے نقل و حمل پر پابندی لگائیں جیسا کہ ایران نے کیا ہے ۔
ایران کو افغان مہاجرین سے کوئی پریشانی لاحق نہیں کیونکہ وہاں ان کو حفاظتی کیمپوں میں رکھا گیا ہے ۔ ہمارے یہاں غیر قانونی تارکین وطن خصوصاً بھارت ‘ افغانستان ‘ بنگلہ دیش اور برما سے آئے ہوئے لوگ بالکل آزاد ہیں ان کو پاکستانی شہریوں کی طرح تمام سہولیات مہیا ہیں وہ کاروبار کررہے ہیں اور جائیدادیں بنارہے ہیں ان میں سے بعض حضرات دہشت گردی میں ملوث ہیں جبکہ حکومت پاکستان دوسری جانب افغانستان کی چاپلوسی پر تلی ہوئی ہے کہ خدارا آپ بھارت کے قریب نہ جائیں۔
پاکستانی مقتدرہ کو یہ بات پلے بٹھا لینا چائیے کہ چاہے آپ کچھ کر لیں افغانستان بھارت کے قریب رہے گا حکومت پاکستان موجودہ حالات میں افغانستان کو بھارت سے دور نہیں رکھ سکتی ۔
لہذا اپنے مسائل اور شہروں پر توجہ دیں کوئٹہ اور پشاور کو سیف اور محفوظ شہر بنانے کے لئے غیر قانونی تارکین وطن کو اس وقت تک کیمپوں میں رکھا جائے جب تک وہ خود وطن واپس نہ جائیں ۔
ان کی آمد و رفت پر مکمل پابندی لگائی جائے،۔ ان کو روزگار کے حقوق سے محروم رکھا جائے اور نہ ہی ان کو بنیادی شہری سہولیات فراہم کی جائیں ۔اگر یہ پابندیاں عائد کی جائیں تو امن و عامہ کی صورت حال ملک بھر میں بہتر ہوجائے گی، دہشت گردی کے واقعات کم سے کم ہوجائیں گے ۔ان غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی ملک کی سلامتی ا ور امن و امان کے لئے شدید خطرہ بنی رہے گی۔