|

وقتِ اشاعت :   June 14 – 2017

اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ چینی کمپنیاں ٹھیکے ملنے پر سینکڑوں کی تعداد میں مزدور بھی اپنے ساتھ لاتی ہیں جس سے مقامی بے روزگار لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔

اس کا سب سے پہلا مظاہرہ سندھک تانبہ اور سونے کے پروجیکٹ میں ہوا کہ سینکڑوں کی تعداد میں چینی مزدور لائے گئے اور وہ گزشتہ 15سالوں سے وہاں کام کررہے ہیں ۔

اسی طرح بجلی گھر تعمیر کرنے کے منصوبوں میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں چینی مزدور لائے گئے ۔گوادر پورٹ کی تعمیر کے پہلے مرحلے میں بھی چینیوں کی بڑی تعداد آئی۔ اسی لیے یہ کہا جارہا ہے کہ چین نے جتنے نئے ٹھیکے اب پاکستان میں حاصل کرلیے ہیں تو ایسی صورت میں چین سے ڈیڑھ کرور کی آبادی پاکستان آ کر مستقل سکونت اختیار کرلے گی ۔

اس لیے ہم نے انہی کالموں میں مطالبہ کیا تھا کہ چینی ویزا صرف ماہرین کو دئیے جائیں اور عام ورک فورس کو ویزے نہ دئیے جائیں تاکہ چینیوں کی کم سے کم تعداد پاکستان بھر خدمات سرانجام دے سکے کیونکہ قومی ترقی کے ثمرات پر بے روزگار اور غریب پاکستانیوں کا پہلا حق ہے ۔

سیاستدان اپنے ذاتی ‘ معاشی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کی خاطر ملکی غریب عوام کے جائز مفادات کو نظر انداز کردیتے ہیں اور ہر معاملے میں چین اور چینی کمپنیوں کی تمام شرائط کو من و عن تسلیم کرتے ہیں اسی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ چینی باشندے اور خصوصاً مزدور بھی چین سے لائے جارہے ہیں ۔

اس بات کا نوٹس ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں لیا گیا جس کی صدارت وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کی جس میں یہ انکشاف ہوا کہ اغواء اور اس کے بعد قتل ہونے ولا جوڑا تبلیغ کرنے ویزے پر آیا تھا ۔

چین کے لوگ بلوچستان میں کس بات کی تبلیغ کرنے آئے تھے یہ ابھی تک راز ہے البتہ یہ ضرورمعلوم ہوا تھا کہ چینی باشندے بلوچستان کے لوگوں کو چینی زبان پڑھانے آئے تھے ۔

بعض مقامی لوگوں نے ان چینی باشندوں کو اکثر مقامات پر تصویر یں اور فلمیں بناتے دیکھا تھا اور وہ عام لوگوں کے نگاہوں کا مرکز بن گئے تھے ۔ اب تفتیش کار یہ بتائیں کہ وہ کون لوگ تھے کس مقصد کے لئے بلوچستان آئے تھے کن کی سفارش پر ان کو پاکستان آنے کا ویزا دیا گیا تھا ، حکومت یہ تمام باتیں عوام الناس کو بتائے ۔

بہر حال چینی بلوچستان میں زیادہ مقبول نہیں ہیں کیونکہ سندھک پروجیکٹ میں چینی کمپنیوں کی لوٹ مار اور مقامی لوگوں کا بے دردی سے استحصال کرتے دیکھ چکے ہیں۔