گزشتہ روز صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پریس کانفرنس کے دوران یہ کہاا کہ اگر نوابزدہ گزین مری ہتھیار ڈال دیں تو وہ ان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔
سرفراز بگٹی سے یہ سوال ہے کہ پاکستانی ریاست کے خلاف گزین مری نے ہتھیار کب اٹھائے تھے کہ وہ وطن واپس آئیں اورپھر وزارت داخلہ و قبائلی امو رکے سامنے پیش ہوں اور انکے سامنے ہتھیار ڈال دیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ 1999ء میں انہوں نے اپنے مرحوم والد مرحوم، بھائی بالاچ سے اختلاف کیا تھا بلکہ پہاڑوں پر جانے سے انکار کیا تھا ۔ یہ خاندان کے اندر ایک سیاسی اختلاف تھا جو گزین مری نے استعمال کیااور شریفانہ انداز میں اپنی راہیں الگ کرتے ہوئے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی ۔لیکن سابق فوجی آمر جنرل پرویزمشرف نے گزین کو دبئی میں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔
ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیے اور متحدہ عرب امارات سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا تاہم متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ان کو پاکستان کے حوالے کرنے کے بجائے ان کے اپنے گھر میں نظر بند کردیا اور انکے خلاف ہفتوں اور مہینوں تحقیقات کیں ۔
ان پر بنیادی الزام منی لانڈرنگ کا تھا وہ ثابت نہ ہو سکا اس کے بعد گزین مری کو رہا کردیا گیا اور حکومت پاکستان کی درخواست کو مسترد کردیا گیا۔ ابھی تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ گزین مری نے جنگ و جدل میں حصہ لیا تھا یا اس کی معاونت کی تھی وہ خاموشی سے زندگی گزار رہے تھے ۔
والد کے انتقال کے بعد یہ ضروری تھا کہ وہ جلد سے جلد وطن واپس آئیں اور ملک کے اندر اپنے جائز خاندانی مفادات کا تحفظ کریں چونکہ وہ بلوچستان کے وزیر داخلہ رہے ہیں بلکہ بگٹی صاحب سے زیادہ بااختیار ‘ با وقار اور طاقت ور وزیر داخلہ رہے ہیں ان کی بات حکومت میں سنی جاتی تھی ۔اب یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنا سیاسی فیصلہ خود کریں، کسی مناسب پارٹی میں شمولیت اختیار کریں اور صوبے کے سیاسی منظر نامے میں ایک فعال کردار ادا کریں۔
ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ، اگر ان پر الزامات ہیں تووہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی عدالت میں ان مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں ، وہ ایک پاکستانی شہری ہیں وطن واپس آنا ‘ خود ساختہ جلا وطنی کو ختم کرنا ان کا حق ہے وہ ایک مجرم کی حیثیت سے پیش نہیں ہورہے ۔
انہوں نے ریاست پاکستان کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا بلکہ وہ صوبے کے وزیر داخلہ اور رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے ریاست پاکستان کی سلامتی کا حلف بھی اٹھایا تھا ۔ ان کی شخصیت کو نواب چنگیز مری ‘ نوابزدہ حیر بیار مری کے ساتھ خلط ملط نہ کیاجائے ، ان کی اپنی شخصیت ہے ان کو اپنا کردار ادا کرنے دیا جائے ۔
اخباری بیان میں انہوں نے اپنے خیالات کا بھرپور اظہار کیا ہے اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ گزین مری کو وطن واپس آنے پر گرفتار کرتی ہے اور ان پرمقدمات قائم کرتی ہے یا ان کی ایک با عزت شہری کی طرح وطن واپسی پر استقبال کرتی ہے تاکہ وہ اپنا کردار اپنے خیالات کے مطابق ادا کریں ۔
یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ کس پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں، ان کے لئے تمام راہیں کھلی ہیں ۔ امید ہے کہ وہ ملک اور قوم کے لئے ایک اثاثہ ثابت ہوں گے اور سیاست میں اچھی روایات کے امین ثابت ہوں گے۔
ایسے موقع پر امید ہے کہ حکومت بڑے پن کا مظاہرہ کرے گی اور من گھڑت رپورٹوں کو نظر انداز کرے گی تاکہ سیاسی ماحول میں بہتری آئے اور مزید ناراض لوگ وطن واپسی کا فیصلہ کریں اور اپنے معاملات کی خود نگرانی کریں۔
اس عمل کو دہرانے سے گریز کیا جائے جیسا کہ نواب خیر بخش مری کے ساتھ ہوا جب وہ افغانستان سے وطن واپس آئے تو ان کے ساتھ وطن واپس آنے والوں کو گرفتار کیا گیا تھا ، ان کا ذاتی اسلحہ ضبط کر لیا گیا تھا ۔ نواب خیر بخش مری نے خود اخبار نویسوں کے سامنے یہ شکایت کی تھی ۔