|

وقتِ اشاعت :   June 17 – 2017

کابل /  واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں مزید 4 ہزار فوجی بھیجنے کا منصوبہ بنا لیا، امریکی اہلکار افغان اہلکاروں کی تربیت، داعش اور طالبان کے خلاف آپریشن کا حصہ ہوں گے۔

پینٹاگان افغانستان میں اپنے مزید 4 ہزار فوجی اہلکار بھیجنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس کا اعلان آئندہ ہفتے تک متوقع ہے۔

اضافی امریکی اہلکار افغان فورسز کی تربیت کریں گے جبکہ دیگر امریکی فوجی اہلکاروں کو طالبان اور داعش کے خلاف انسداد دہشت گری کے آپریشن میں شامل کیا جائے گا۔

ٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران کسی بھی ملک میں امریکی فوجیوں کی یہ سب سے بڑی تعیناتی ہو گی۔ اس مناسبت سے حتمی اعلان اگلے ہفتے کے دوران امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کی جانب سے کیا جائے گا۔

دوسری جانب پینٹاگان کے ترجمان نیوی کیپٹن جیف ڈیوس سے جب رابطہ کیا تو انھوں نے صرف اتنا کہا کہ ابھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

دوسری جانب افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے امریکی فوجیوں کی تعیناتی پرقدرے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت مزید امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے فیصلے کی حمایت کرے گی۔

وزیری نے یہ بھی کہا کہ امریکی حکومت آگاہ ہے کہ کابل حکومت دہشت گردی کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف ہے اور حکومت نیٹو اتحاد کی مدد سے اس جنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں بھی ہے۔

افغانستان میں اس وقت امریکی فوجیوں کی تعداد ساڑھے 8 ہزار ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی جانب سے بھی امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ البتہ طے ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد کی رکن ریاستیں افغانستان میں اپنے فوجیوں میں اضافے کی خواہش رکھتی ہیں۔

امریکی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی کی نوعیت اور کردار کا تعین اب امریکی جرنیل کریں گے، جن کا الزام ہے کہ پاکستان وہاں جاری بغاوت کو کچلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں سینٹر فار پاکستان اسٹڈیز کے سربراہ ، ڈاکٹر مارون وائن بام نے کہاکہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے کوئی پالیسی وضع نہیں کی گئی، اور ہو گی بھی نہیں، جب تک کہ افغانستان کے لیے کوئی پالیسی طے نہیں ہو جاتی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کے دو طرفہ تعلقات کی نوعیت افغانستان کے ساتھ تعلقات کے فیصلے سے منسلک ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر وہ اندازہ لگائیں کہ کیا ہو گا، تو ان کے خیال میں افغانستان کے مسئلے پر تعاون کے لیے پاکستان پر نیا دباؤ ڈالا جائے گا۔