ہمارے اخبار میں ایک خبر چھپی ہے کہ محکمہ آبپاشی پٹ فیڈر میں پانی چوروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا گیاہے ۔
محکمہ آبپاشی کے افسر ان کی نگرانی میں غیر قانونی پمپ ‘ پائپ لائنوں کو ہٹایا جارہا ہے، تمام غیر قانونی واٹر کورس بند کیے جارہے ہیں تاکہ پٹ فیڈر کے آخری سرے پر موجود کاشتکاروں کو موجودہ سیزن میں پانی جائز مقدار میں مل سکے۔
ہمیں یاد ہے کہ سابقہ چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ سے زمینداروں کے ایک وفد نے ملاقات کی تھی اور ان سے نہری پانی کی بڑے پیمانے پر چوری کے خلاف شکایت کی تھی
جس پر انہوں نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو حکم دیا کہ نہری پانی کی چوری کو موثر طورپر روکیں اور چوروں کے خلاف کارروائی کریں ۔ چند دن تک ان احکامات پر عمل ہوتا رہا بعد میں دوبارہ پانی کی چوری زیادہ بڑے پیمانے پر شروع ہوئی جو آج دن تک جاری ہے ۔
آبپاشی کے افسران دباؤ بڑھ جانے کی صورت میں تھوڑی بہت کارروائی کرتے ہیں پھر خاموش ہوجاتے ہیں اور چوروں کی حکمرانی قائم رہتی ہے ۔ پانی چوری کی اصل وجہ نہری پانی کی قلت ‘ گزشتہ آٹھ ماہ تک پٹ فیڈر کے حصے کا ستر فیصد پانی سندھ اور پنجاب نے روکے رکھا لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سنا اور دیکھا کہ صوبے کے بڑے بڑے رہنما اس بڑے پیمانے پر پانی کی چوری بلکہ دن دہاڑے ڈاکے کے خلاف آواز اٹھائی ہو، ان پارلیمانی اراکین میں وہ بھی شامل ہیں جن کا تعلق بلوچستان سے ہے ۔
گزشتہ دنوں علاقے کے ایک ایم پی اے نے شور مچایا ایک آدھ بار جلوس نکالا اور بعد میں وفاق کی جانب سے یہ اعلان آیا کہ پٹ فیڈر کو تین ہزار کیوسک اور کیر تھر کینال کو 1400کیوسک پانی فراہم کیا جا ئے گا۔
مقامی زمینداروں کا دعویٰ ہے کہ پٹ فیڈر کو صرف ڈھائی ہزار کیوسک پانی فراہم کیا جارہا ہے حالانکہ پٹ فیڈر کو ساڑھے چھ ہزار کیوسک ملنا چائیے ۔
افسوس کی بات ہے بلوچستان کے اکثر رہنماء صرف ذاتی مفادات کی نگرانی کرتے نظر آتے ہیں، ان کو اجتماعی مفادات کی نگرانی کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ہمارے پاس فی الحال دو بڑے کینال ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں آبپاشی کا نظام تبدیل کیاجائے فلڈ ایریگیشن کی بجائے قطر ہ قطرہ آبپاشی کا نظام قائم کیاجائے تاکہ اس پانی سے ہم بیس لاکھ ایکڑ زمین آباد کریں بلکہ دو لاکھ سیم اور تھور زدہ زمین کو دوبارہ قابل کاشت بنائیں ۔
گزشتہ سالوں یہ موقع آیا تھا کہ اس منصوبے پر عمل کیا جاتا لیکن ہمارے سابق سینئر وزیر اور منصوبہ بندی اور ترقیات نے اس کی مخالفت کی اور پی ایس ڈی پی کو اپنے ذاتی اور ناکارہ منصوبوں کے لئے رکھا، مولانا نے اس کی بھرپور مخالفت کی بلوچستان کی دولت کو ذاتی دولت سمجھا اور اس کو ایم پی اے حضرات میں تقسیم کی تاکہ ان کی آمدنی میں کوئی کمی نہ ہو ۔
اگر قطرہ قطرہ آبپاشی اسکیم پر عمل ہوتا تو لاکھوں ایکڑ اضافی زمین آباد ہوتی اور لاکھوں افراد کو روزگار ملتا ۔چونکہ سابق وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کا اقلیتی گروپ سے تعلق تھا اس لیے پریشر گروپس نے دباؤ ڈال کر ان منصوبوں پر عمل درآمد روک دیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت ورلڈ بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے رابطہ کرکے فنڈزاور فنی امداد طلب کرے تاکہ بلوچستان میں قطرہ قطرہ آبپاشی کا نظام قائم کیا جائے اور تمام نہروں کو محفوظ اور آلودگی سے پاک رکھا جائے بلکہ تمام نہروں کو پکا بنایا جائے تاکہ نہری پانی کوضائع ہونے سے بچایا جاسکے ۔