کوئٹہ: حزب اختلاف کے ڈپٹی لیڈر زمرک خان اچکزئی نے ایوان کو اس وقت حیران کر دیا جب انہوں نے دعویٰ کیا کہ وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے راتوں رات ایک ارب 25کروڑ روپے کی کثیر فنڈ کی دوسرے حلقے سے اپنی حلقے میں منتقل کردیا۔
بجٹ پر اسمبلی کے اندر تقریر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ یہ غیر قانونی ہے، غیر آئینی ہے اور یہ کرپشن کی ایک بدترین مثال ہے ،جس میں حکومت ملوث ہے، زمرک خان نے یہ نشاندہی کی کہ گزشتہ بجٹ پورے ایوان (بلوچستان اسمبلی )نے منظور کیا تھا اور کسی بھی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ اس فنانس بل میں ترمیم کرے، ایک حلقے کے فنڈ کو ثوابدیدی اختیارات سمجھ کر اپنے حلقے میں لے جائے۔
زمرک خان نے یہ بھی کہا کہ اگر موجودہ بجٹ کو عدالت عالیہ سے چیلنج کریں تو کوئی بھی شخص یہ فنڈ استعمال میں نہیں لاسکتا، البتہ یہ صرف وزیرتعلیم کیخلاف نہیں بلکہ وہ تمام متعلقہ افسران کو سزائیں ہوسکتی ہیں ، انہوں نے فنڈ کو غیر قانونی اور غیر آئینی طریقہ سے وزیر تعلیم کے حلقہ انتخاب میں منتقل کیا۔
اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی اسمبلی میں ڈپٹی آپریشن زمرک خان اچکزئی نے پیر کے روز صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر کرتے ہوئے کہاکہ گورنربلوچستان کو کس اختیار کے تحت 50کروڑ روپے دیے گئے ہیں ہمیں پتہ ہے کہ یہ پیسہ کہاں خرچ ہوگا اپوزیشن کو ایک منصوبے کے تحت نظرانداز کیا جارہا او ر اسکا کے ساتھ امتیازی سلوک بھرتا جارہاہے۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن وصوبائی اسمبلی نصراللہ خان زہرے کی تقریب کے اپوزیشن نے اجلاس کے دوران شورشراباکیا نصراللہ زہرے نے کہاکہ سابقہ دورحکومت میں لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور ہمیں معلوم ہے کہ کون کون لوگ اس میں ملوث تھے پیر کے روز بھی اپوزیشن اور عضب اقدارکے درمیان نوق جوق کا سلسلہ جاری رہا ۔
دریں اثناء بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان بجٹ کی تقسیم کے معاملے پر تلخ کلامی ہوئی۔ کرپشن کے الزامات عائد کرنے پر حزب اختلاف کے ارکان نے شور شرابا کیا ، خاموش نہ ہونے پر اسپیکر نے حزب اختلاف کے ارکان کو ایوان سے نکالنے کی دھمکی دی۔
حزب اختلاف جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان نے بجٹ کو صوبے کی تاریخ کا ناکام ترین بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ کی تقسیم میں امتیازی سلوک کرتے ہوئے حزب اختلاف کے حلقوں کو نظر انداز کیا گیا، منتخب عوامی نمائندوں کی بجائے وفاق کے نمائندے گورنر بلوچستان کو پچاس کروڑ روپے کس آئین و قانون کے تحت دیئے گئے۔
جبکہ حکومتی جماعتوں پشتونخواملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ ن اور مجلس وحدت مسلمین کے ارکان نے بجٹ کو عوام دوست اور متواز ن قرار دیتے ہوئے کہاکہ تعلیم، صحت اور امن وامان سمیت تمام شعبوں پر خاص توجہ دی گئی ہے ،جاری ترقیاتی منصوبوں اور ڈویژنل ہیڈکوارٹرز کیلئے خطیر ترقیاتی فنڈز رکھ کر انقلابی اقدام اٹھایا گیا۔
بلو چستان اسمبلی کا اجلاس پیر کو نصف گھنٹے کی تاخیر سے اسپیکر راحیلہ حمید درانی کی زیر صدا رت تلا وت کلا م پا ک سے ہوا ۔بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرے نے کہا کہ پانچواں متوازن بجٹ پیش کرنے پروزیراعلیٰ ، مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں ، محکمہ خزانہ اور محکمہ ترقی و منصوبہ بندی سمیت تمام لوگ پیش کرنے پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے چھیاسی ارب روپے رکھے گئے ہیں گزشتہ چار سالوں کی طرح آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عملدرآمد سے عوام پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ،انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی ارکان کو زیادہ اور حزب اختلاف کو کم فنڈز دیئے جانے کی باتیں درست نہیں ہیں ۔
محکمہ ترقی و منصوبہ بندی اور دیگر تمام ادارے حکومتی ہدایت پرکام کرتے ہیں اور جہاں حکومت ضرورت محسوس کرتی ہے یا مناسب سمجھتی ہے وہاں منصوبے دیتی ہے ،یہ حکومت کا ہی اختیار ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں امن وامان تعلیم و صحت کے شعبوں میں بہتری آئی ہے قومی شاہراہیں محفوظ ہوگئی ہیں
،حزب اختلاف میں بیٹھ کر حکومت پر تنقید کرنے والوں کے دور کے سیاہ کارنامے سب کے سامنے ہیں، اس دور میں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں تھی، ماضی میں بد عنوانی کا بازار گرم تھا ،جعلی منصوبے بنائے جاتے رہے کوئٹہ واٹر سپلائی پراجیکٹ میں بھی دس ارب روپے کی بد عنوانی کی گئی۔
اس موقع پر نصراللہ زیرئے اور جمعیت علماء اسلام کے مفتی گلاب خان کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ۔مفتی گلاب نے اعتراض اٹھایا کہ کہ نصراللہ زیرے غیر متعلقہ موضوعات کی بجائے صرف بجٹ پر ہی بات کریں ۔
جس کے جواب میں صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ بجٹ پر بحث کے دوران بجٹ اور حکومتی پالیسی سمیت ہرموضوع پر بات ہوسکتی ہے ۔نصراللہ زیرے نے کہا کہ ہم دو دن سے تحمل کے ساتھ اپوزیشن کی باتیں سن رہے ہیں اب وہ بھی ہمیں سنیں ۔موجودہ اپوزیشن جو کل حکومت میں تھی اس کے دور میں کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کے لئے دس ارب روپے سے منصوبہ بنایاگیا عوام کو پانی تو نہیں مل سکا مگر شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کردیاگیا مگر موجودہ حکومت کام کررہی ہے چھیاسی ارب روپے کا ترقیاتی فنڈیقیناًکم ہے نیا این ایف سی آنا چاہئے ۔
نصر اللہ زیرے نے وزیراعلیٰ کی توجہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے بلوچستان کے ایگزیکٹیو انجینئروں کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں انہوں نے سپیکر سے بھی درخواست کی کہ ممبر این ایچ اے کو اسمبلی میں بلا کر اس مسئلے پر بات کی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز کے لئے فنڈز رکھ کر انقلابی اقدام اٹھایا گیا، اس سے پہلے اجلاس کے آغاز میں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے پرنس احمد علی نے کہا کہ کسی بھی بجٹ میں دو اہم باتیں دیکھی جاتی ہیں ایک تو بجٹ میں خسارہ ، اور جی ڈی پی میں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔
اگر جی ڈی پی میں بہتری آرہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ خوشحالی آرہی ہے ہمارے ہاں فی کس آمدنی میں اضافہ خوش آئند ہے تاہم اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے ترقیاتی بجٹ کے مقابلے میں غیر ترقیاتی بجٹ میں اضافہ ہورہا ہے ان دونوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرور ت ہے ،اگر توازن نہ رکھا گیا تو 2030تک ترقیاتی بجٹ صرف5فیصد تک پہنچ جائیگا۔فیڈرل پول کے ساتھ اپنی آمدنی میں اضافے پر بھی توجہ دینی ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں بارہ سو سے زائد جاری اسکیموں کو شامل کرنے کا وزیراعلیٰ کا فیصلہ دلیرانہ ہے جس پر وہ اور ان کی ٹیم داد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے تعلیم ،صحت کے ساتھ ساتھ زراعت ، صنعت و حرف اور امور حیوانات جیسے پیداواری شعبوں بجٹ میں اضافے پر بھی زور دیا۔
پرنس احمد علی کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری ہمارے صوبے کے لئے اہمیت کاحامل ہے اس سلسلے میں فنی مہارت کے اداروں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ،لسبیلہ میں ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اور بی آر سی کالج کے زیر تعمیر منصوبوں کیلئے فنڈز مختص کئے جائیں ۔
انہوں نے ضلع لسبیلہ میں قائم صنعتی مراکز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لسبیلہ اربوں روپے کا ریونیو دیتا ہے ،ہر ضلع کی اپنی ایک خصوصیت ہوتی ہے ہر ضلع کی اس خصوصیت دیکھتے ہوئے اس پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے اضلاع کو آمدن کے تناسب سے بجٹ میں حصہ دینا چاہیے ۔
پرنس احمد علی نے کہاکہ بجٹ میں زراعت کے لئے8ارب روپے رکھے گئے ہیں ڈیرہ بگٹی میں 57ہزار ایکڑ اراضی کو آباد کرنے کا منصوبہ بھی تجویز کیاگیا ہے جو انتہائی خوش آئند ہے باقی اضلاع میں بھی ایسے منصوبے دینے چاہئیں۔ نئی اسامیاں ہربجٹ میں ہوتی ہیں اگلے مالی سال کے بجٹ میں بھی نئی اسامیاں رکھی گئی ہیں
جبکہ آئی ٹی کے شعبے میں کوئٹہ سیف سٹی پراجیکٹ اور گوادر سیف سٹی کے منصوبے پرکام کیا جارہا ہے جو خوش آئند ہے ،انہوں نے تاریخی عمارات اور ورثے کی حفاظت پر توجہ دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ پرنس احمد علی بلوچ نے کہا کہ منصوبہ بندی پر توجہ دیتے ہوئے بجٹ میں طویل اور قلیل مدتی منصوبے شامل کئے جائیں۔
حزب اختلاف کی جماعت جمعیت علماء اسلام کے مفتی گلاب نے بجٹ پر شدید تحفظات کااظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان اور بلوچستان کی تاریخ کا ناکام ترین بجٹ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس حکومت کا پانچواں بجٹ ہے جس میں اپوزیشن کو مکمل طور پر نظر انداز کیاگیا ہے ہم نے جو بھی سکیمیں دی تھیں انہیں شامل نہیں کیا گیا
پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ جاری ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز بڑے منصوبوں کی بجائے حلقوں کی بنیاد پر حکومتی ارکان اسمبلی میں تقسیم کئے گئے انہوں نے کہا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جو حکومتی رکن ہے اس کے حلقے میں3ارب روپے جائیں اور حزب اختلاف کے حلقے میں20کروڑ جائیں ۔
کیا حزب اختلاف کے حلقے بلوچستان کا حصہ نہیں ہے یا یہ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے ماتحت نہیں آتا ،ہم ہمیشہ پنجاب کی زیادتیوں کا رونا روتے ہیں لیکن جب ہمیں اختیار ملتا ہے تو ہم پنجاب سے بڑھ کر ظلم کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اربوں روپے کے فنڈز لیپس ہوئے لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان کی یقین دہانی کے باوجود حزب اختلاف کے ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کئے گئے ۔
قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے ترقی و منصوبہ بندی کے وزیر نے حزب اختلاف کے صرف 12کروڑ روپے کے فنڈز رو ک کر ’’پشتون دوستی‘‘ کا ثبوت دیا ۔وزیراعلیٰ بلوچستا ن اس امتیازی سلوک اور نا انصافی کا نوٹس لیں،ڈپٹی اپوزیشن لیڈر انجینئرزمرک خان اچکزئی نے بجٹ اور اگلے مالی سال کی پی ایس ڈی پی پر شدید تحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم صرف پیسہ لینے دینے کو کرپشن سمجھتے ہیں حالانکہ کرپشن کے کئے طریقے ہیں یہ بھی کرپشن ہی کی ایک شکل ہے کہ ایک حلقے کے عوام کے پیسے اٹھا کر دوسرے حلقے میں لے جائیں۔
ہر سال دو بجٹ پیش ہوتے ہیں ایک وفاقی دوسرا صوبائی ۔ میں حکومتی اراکین کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ2013ء سے اب تک کے وفاقی بجٹ میں شامل ایک بھی ایسا میگا پراجیکٹ بتائیں جو وفاق نے بلوچستان کے عوام کو دیا ہو انہوں نے کہا کہ 2008ء میں ہمارے پاس کل ترقیاتی بجٹ بمشکل پانچ ارب روپے تھا آج اگر ہم 328ارب کا بجٹ دے رہے ہیں
تو یہ این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارہویں ترمیم کی بدولت ممکن ہوا ہے ہماری حکومت نے این ایف سی ایوارڈ کا اجراء یقینی بنایا اب پانچ سال کے بعد پھر این ایف سی کے لئے صوبوں کو بیٹھنا تھا مگر یہ لوگ نہیں بیٹھے بلوچستان کے عوام سونے کے ڈھیر پر بیٹھ کر بھیک مانگے پر مجبور ہیں وفاق نے اگر گوادر کے لئے منصوبے دیئے ہیں
تو گوادر آپ کی مجبوری ہے ہم آپ سے پوچھتے ہیںکہ آپ نے باقی صوبے کے لئے کیا کیا ،آپ نے ساہیوال اور لاہور کو آباد کیا ہے اچھی بات ہے آپ آباد کریں لیکن وفاقی بجٹ میں بلوچستان کو کیا دیا گیا۔سی پیک کے تحت مغربی روٹ پر اب تک ایک پتھر بھی نہیں رکھاگیا ہم صوبائی حکومت سے پوچھتے ہیں کہ آپ ان چار سالوں میں آپ مرکز سے کیا لائے ہیں ہم بار بار کہتے ہیں
کہ بلوچستان مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگاچار سالوں میں ایک بھی منصوبہ یہ حکومت مرکز سے نہیں لائی 2013ء سے اب تک پورے ملک سے ایچ ای سی کے پاس 15یونیورسٹیاں رجسٹرڈ ہوئی ہیں جن میں بلوچستان کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ۔
صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی )انتہائی عجلت میں راتوں رات بنائی گئی ہے ایک ارب25کروڑ روپے زیارتوال اپنے حلقے میں لے کرگئے ہیں اچھی بات ہے وہ لیجائیں مگر کسی دوسرے علاقے کا لے جانا کہاں کا انصاف ہے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان بتائیں گورنر کوپچاس کروڑ روپے کیوں اور کس آئین و قانون کے تحت دیئے جارہے ہیں ،وہ عوام کے منتخب نمائندے نہیں وفاق کے نمائندے ہیں وہ ہمارے لئے قابل احترام ہیں مگر ہمیں بتایا جائے کہ انہیں یہ کس مد میں دیئے جارہے ہیں ،انہوں نے کہا کہ میں آج ایک درخواست عدالت میں دائر کردوں تو یہ ترقیاتی فنڈز خرچ نہیں ہوسکیں گے ۔
خدا کی قسم یہ لوگ توہین عدالت کررہے ہیں عدالت کے احکامات تھے کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں میرے حلقے پی بی 12کا سات کروڑ روپے کا شمسی توانائی کا منصوبہ شامل کیا جائے مگر یہ منصوبہ شامل نہیں کیاگیا میرے منظور شدہ ترقیاتی منصوبے کے آگے نامنظور (ان اپرروڈ)لکھا گیا ۔
یہ کہاں کا انصاف ہے ۔میں حیران ہوں کہ کہاں جاؤں یہاں اس ایوان میں مجھے یقین دہانیاں کرائی گئیں عدالت کے احکامات تک نہیں مانے جارہے ۔ انہوں نے وزیراعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدا را بجٹ پرنظرثانی کی جائے ۔
انہوں نے کہا کہ چار سال کے دوران ان سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے آج بھی ایوان میں ان کی بات نہیں سنی جارہی بہتر ہے کہ یہاں بیٹھنے کی بجائے میں واک آؤٹ کروں ۔اس موقع پر قائد حزب اختلاف مولانا عبدلواسع نے وزیراعلیٰ سے درخواست کی کہ وہ ایوان کی کارروائی کے دوران حکومتی ارکان کے ذاتی مسائل سننے کی بجائے بجٹ پر بحث کے دوران ارکان کی جانب سے اٹھائے گئے تحفظات پر غور کریں ۔
مجلس وحدت المسلمین کے آغا رضا نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں تمام شعبوں کو توجہ دی گئی ہے جس پر اراکین نے کافی روشنی ڈالی ہے میں ہر شعبے کا الگ الگ ذکر نہیں کرنا چاہتا البتہ کوئٹہ شہر کا ذکر ضرور کروں گا کوئٹہ شہر کے لئے میگاپراجیکٹس کی پہلے بھی ضرورت تھی آج بھی ضرورت ہے کوئٹہ ایکسپریس وے کا منصوبہ بجٹ میں شامل کیا گیا ہے
جوا نقلابی اقدام ہے اب ضروری ہے کہ یہ منصوبہ جلد ازجلد مکمل کیا جائے اسی طرح پانی کے مسئلے کے حل کے لئے بھی منصوبے شامل کئے گئے ہیں یہ منصوبے جتنی جلدی مکمل ہوں اچھا ہے انہوں نے اسامیوں پر بھرتیوں کے عمل پر تحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ
ہمارے قبیلے کے لوگ بھرتی نہیں ہورہے جس کی وجہ سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا وہ نااہل ہیں یا پھر کوئی اور وجہ ہے اب جو اگلے مالی سال کے بجٹ میں نئی اسامیاں رکھی گئی ہیں ان پر بھرتیاں میرٹ کے مطابق شفاف طریقے سے کی جائیں ۔