|

وقتِ اشاعت :   June 22 – 2017

پاکستان اور امریکا کے تعلقات روز بروز تنزلی کی طرف جارہے ہیں ۔ مغربی ذرائع ابلاغ سرکاری حلقوں کی جانب سے یہ تصدیق کر رہے ہیں کہ امریکا سوچ رہا ہے کہ پاکستان پر آنے والے دنوں میں دباؤ مزید بڑھایا جائے ۔

امریکا اور امریکا کے مقتدر حلقے افغانستان میں انتہائی خراب سیکورٹی کی صورت حال کا الزام پاکستان اور افغانستان میں بعض جنگجو تنظیموں خصوصاً حقانی نیٹ ورک اور طالبان پر لگاتے ہیں ۔

ان کایہ بھی الزام ہے کہ جنگجوعناصر پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں اور حملوں کے بعد واپس آکر دوبارہ منظم ہوتے ہیں لیکن پاکستان ہمیشہ سے اس کی تردید کرتا آیا ہے ، امریکا میں پا کستانی سفیرنے اعلان کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان میں نہیں ہے آج کل وہ افغانستان کے اندر کام کررہا ہے۔

اس کو پاکستان کی سرزمین سے بے دخل کیا گیا ہے ۔تاہم مغربی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر دی ہے کہ امریکا آج کل پاکستان ‘ افغانستان ‘ ایران اور بھارت سمیت دیگر ملکوں کے لیے پالیسی تشکیل دے رہا ہے یہ پالیسی ابھی تشکیل کے مراحل میں ہے ۔

امریکا کے طاقتور ادارے ایک دوسرے کے ساتھ صلح و مشوروں میں مصروف ہیں اور جلد ہی اس کا اعلان کردیاجائے گا۔ مغربی ذرائع کے مطابق اس پالیسی کے مطابق پاکستان کے اندر دہشت گردوں اور افغان طالبان کے ٹھکانوں کو براہ راست نشانہ بنایاجائے گا ان پر ڈرون حملے تیز کیے جائیں گے ۔

تازہ ترین امریکی ڈرون حملہ ہنگو میں ہوا تھا جس میں حقانی نیٹ ورک کا ایک کمانڈر اپنے تین ساتھیوں سمیت مارا گیا، اس پر حکومت پاکستان کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا البتہ آرمی کے سربراہ نے اس پر اپنی سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ ان معاملات میں اطلاعات کا تبادلہ ہونا چائیے ۔

یک طرفہ کارروائی نہیں ہونی چائیے کیونکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکی محکمہ خارجہ پاکستان کے اس درجہ کو بھی کم تر اور کم اہمیت دینا چاہتا ہے جس کے تحت پاکستان کو غیر ناٹو ممبر کے اتحادی کا اعزاز بخشا گیا تھا۔

اب شاید امریکا پاکستان سے نان ناٹو اتحادی کا درجہ واپس لینا چاہتا ہے بلکہ امریکا یہ اعزاز حال ہی میں بھارت کو دے چکا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ امریکا پاکستان کی مالی اور فوجی امدادکوکم بلکہ بند کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے جس سے پاکستان کے مالی اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔

امریکی وزیر خارجہ نے یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ ان کا ملک علاقائی بنیاد پر امن پالیسی تشکیل دے رہا ہے جس میں ان ممالک کے درمیان تعلقات کو بھی مدنظر رکھاجائے گا ۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان اور بھارت کے تعلقات اور ایران سے متعلق انہوں نے کہا کہ ایران میں ایک عبوری حکومت کے قیام کی تیاری کرنی چائیے ۔

شاید ان کی مراد ایران میں حکومت کی تبدیلی ہے ۔ ایران کی حکومت نے امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان پر سخت احتجاج کیا ہے ۔ تہران میں سوئٹزر لینڈ کے ناظم الامور کو طلب کرکے ایک احتجاجی یادداشت پیش کی گئی جس میں امریکا سے اس بابت وضاحت مانگی گئی ہے۔

ایران نے اقوام متحدہ کو بھی ایک خط لکھاہے جس میں امریکی وزیر خارجہ کے بیان پر احتجاج درج کروایا ہے ۔ ان تمام باتوں سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ امریکا اب ایران ‘ پاکستان اور افغانستان کے معاملات کو زیادہ اہمیت دینا چاہتا ہے ۔

اس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ امریکا شام‘ عراق کو چھوڑ کر اب اس خطے پر توجہ دے گا اور کوشش کرے گا کہ ایران اور پاکستان پر اپنی خارجہ پالیسی کو مسلط کرے۔ اس پالیسی میں سعودی عرب اور اسکے تمام اتحادی شامل ہیں پاکستان بھی سعودی فوجی اتحاد کا حصہ ہے، اس کے ساتھ خود سعودی کس طرح کا سلوک روا رکھیں گے۔

اس کا مظاہرہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اس سارے تناظر میں بھارت فائدے میں نظر آتا ہے ، اس کو امریکی فوجی امداد اور دیگر فنی سہولیات ملیں گی ۔ ہم ابھی تک خاموش ہیں اس کے جواب میں پاکستان نے کوئی پالیسی بنائی ہے یا نہیں یا ہم صرف پانامہ کیس پر توجہ مبذول رکھیں گے۔