کوئٹہ: کوئٹہ کے حساس ترین علاقے شہداء چوک جس کے قریب چند گز کے فاصلے پر آئی جی بلوچستان کا دفتر قائم ہے اس کے علاوہ کئی حساس اداروں کے دفاتر اسکے بائیں جانب اسٹیٹ بینک اور گورنمنٹ کالج موجود ہے ۔
سوالیہ نشان یہ ہے کہ یہ گاڑی جس میں 90سے 100کلو گرام بارود نصب تھا اس حساس علاقے میں کیسی پہنچی کیا یہ گاڑی کراچی میں تیار کی گئی تھی کیونکہ اس گاڑی کا مالک کراچی کا رہائشی ہے اور یہ گاڑی کراچی سے کوئٹہ تک کیسے پہنچی ۔
کیا راستے میں اس کی کوئی چیکنگ نہیں کی گئی دہشتگرد اس گاڑی کوآئی جی آفس کے اندر لیجانا چاہتا تھایا کینٹ میں داخل ہونے کی کوشش کررہاتھا ۔
جب اس گاڑی میں بیٹھے ہوئے دہشتگرد نے شہداء چوک کے چار چکر لگائے تو ایک عینی شاہدین نے بتایا کہ شہداء چوک پر تعینات پولیس نے اس کو روکا اور اس سے پوچھا شہداء چوک کے چکر کیوں لگارہا ہے اور وہ دہشتگرد گھبرا گیا ۔
اسی دوران اس نے گاڑی جو دھماکہ بارود سے بھری ہوئی تھی اڑادیا جس کی دور دور تک آواز سنائی دی اور لوگ خوفزدہ ہوکر اپنے گھروں سے باہر آگئے جیسے ہی شہداء چوک پر پرنٹ میڈیا او رالیکٹر ک میڈیا پہنچی تو وہاں پر قیامت خیز منظر تھا اور چاروں طرف لاشیں اور خون بھکرا ہوا تھا ۔
حساس اداروں نے فوری طورپر پہنچ کر علاقے کو گھیر ے میں لے لیا اور کسی بھی شخص کو قریب آنے کی اجازت نہیں دی پولیس نے سول ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کردی زخمیوں کو سی ایم ایچ ہستپال کینٹ اور سول ہسپتال پہنچا دیا ۔
کوئٹہ، حساس علاقے میں خود کش حملہ آور کا پہنچنا سوالیہ نشان
وقتِ اشاعت : June 24 – 2017