اسلام آباد : پانامہ کیس حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا ہے ، جوائنٹ انوسٹی گیشن (جے آئی ٹی ) نواز شریف کیخلاف کرپشن سکینڈل کی تحقیقات کی حتمی رپورٹ دس جولائی کو سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔
دوسری جانب عید الفطر کے بعد ملک میں سیاسی درجہ حرارت تیز ہونے کا امکان ہے کیوں کے پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کی تیسری رپورٹ جمع ہونے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہوئے دن گننا شروع کر دیئے ہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے ۔
تحریک انصاف عید کے بعد حکمران جماعت پر دباؤ ڈالنے کے لیے سڑکوں پر آتے ہوئے نظر آ رہی جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن بھی جوابی وار کے لیے پر اعتما دکھائی دیتی ہے ،سپریم کورٹ دس جولائی کو جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فیصلہ محفوظ کرتی ہے یا اسی روز جاری کر ے گی ۔
اس پر کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والا پانامہ لیکس کا حتمی فیصلہ وزیراعظم اور شریف خاندان کے سیاست کے مستقبل کا فیصلہ ضرور کرے گا،اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیراعظم مجرم قرار پائے تو تحریک انصاف کی جانب سے قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ بھی سامنے آسکتا ہے ۔
یاد رہے کہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے اپنی تیسری پیشرفت رپورٹ سربمہر جمعرات کو سپریم کورٹ کے بنچ کے سامنے پیش کی ہے اور حسین نواز کی تصویر لیک معاملے کا بھی اعتراف کر لیا ہے جبکہ وزیراعظم نواز شریف ، شہباز شریف ،حسین ،نواز ، حسن نواز ، سعید احمد ، کیپٹن صفدر ، رحمان ملک سمیت دیگر گواہ بھی جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرا چکے ہیں ۔
عید الفطر کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی کشید گی کے باعث دو اہم سیاسی جماعتوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان بھی تنازعہ پید ا ہو سکتا ہے کیوں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کارکنوں کو سڑک پر لانے کے موڈ میں نظر آتے ہیں اور مسلم لیگ ن بھی جوابی وار کے لیے تیار نظر آ رہی ہے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ نواز شریف کی سیاست ختم کرد ے گا یا وہ بچ جائیں گے ۔
اس کا تعین عید کے بعد پید اہونے والی صورتحال سے ہی ہو گا کیوں کہ یہ اپوزیشن اور حکومت کے رویہ پر منحصر ہے ، عید کے بعد ہی اس بات کا اندازہ کیے جا سکے گا کہ مسلم لیگ ن نظام کو چلانا چاہتی ہے یا اپنی سیاسی کشتی کو ڈبونا چاہتی ہے ۔
تاہم مسلم لیگ کو سخت رویہ اختیار کرنے کے بجائے پی پی سے بھی سبق سیکھنا چاہیے کے اس نے کیسے وزیراعظم کی قربانی دے کر سسٹم کو ڈی ریل ہونے سے بچایا اور اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی ۔
اگر پاکستان کی سیاست کو دیکھا جائے تو جولائی کے مہینے کی اپنی ایک اہمیت ہے کیوں کے اسی مہینے میںآج سے چالیس سال قبل جنرل ضیالحق کی جانب سے سسٹم کو ڈی ریل کیا گیا تھا ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کا دور پانچ جولائی 1977نہیں اور نہ ہی 12اکتوبر 1999ہے یہ جولائی 2017ہے اور 2014میں بھی سیاست دانوں نے سسٹم کو ڈی ریل ہونے سے بچایا تھا، اب بھی اگر فہم سے سے فیصلے کیے جائیں تو نظام کو ڈی ریل ہونے بچایا جا سکتا ہے ۔
اس کے لیے حکمران جماعت اور اپوزیشن کو بھی ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی تنازعات نے ہمشیہ آمروں کو اقتدار میں آنے کا موقع فراہم کیا ہے جس کی وجہ سے ہم نے دیکھا کہ جنر ل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے ملک میں انیس سال تک حکمرانی کی ۔
لیکن یہاں صورتحال 1977اور1999سے مختلف ہے کیوں کہ یہاں سیاسی کشیدگی نہیں نہ ہی سول ملٹری تعلقات خراب ہیں آج عدالتی جنگ چل رہی ہے اور عدالتیں بھی پہلے سے مختلف ہیں ، اور اگر وزیراعظم نواز شریف شک کا فائدہ لیتے ہوئے بچ جاتے ہیں تو وہ 2018تک وزیراعظم رہیں گے۔
لیکن اگر وہ یہ کیس ہار جاتے ہیں تو انکی جماعت کو پی پی کے نقشے قدم پر چلتے ہوئیے متبادل وزیراعظم لا کر ایک سال مکمل کر نا چاہیے ،اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم کی نااہلی شریف خاندان کی سیاست کے لیے بڑا سیاسی دھچکا ہے اور اس سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہو گا ۔
گو کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ وزیراعظم کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ کو متاثر کرے گا لیکن انکے پاس سیاسی کارڈ ز موجود ہیں،دوسری جانب حزب اختلاف خصوصا عمران خان کا انداز سیاست مختلف نظر آ رہا ہے اور انہوں نے عید کے بعد الیکشن تک حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے ک کے لیے سڑکوں پر آنے کے لیے غور کر رہے ہیں ۔
لیکن اگر پارلیمنٹ نیا وزیراعظم منتخب کر لیتی ہے تو اپوزیشن کے لیے قانون کے دائرے میں رہ کر حکمران جماعت کو ٹھکانے لگانا مشکل ہو جائے گا ، لیکن اس صورتحال میں پی پی کے کردار کو بھی دیکھنا ہوگا کہ اس کا جکاؤ کس طرف ہوتا ہے کیا وہ اس سیاسی تنازعہ میں سائیڈ پر رہے گی یا حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے تحریک انصاف کا ساتھ دے گی۔
کیوں کہ پیپلزپارٹی ایوان بالا کے انتخابات سے قبل حکومت کو گھر بھیجنے کی خواہش مند نظر آتی ہے ،لیکن وہ کوئی غیر آئینی طریقہ بھی اختیار کرنے کے حق میں نہیں ہے ،کیوں کہ پی پی ہی واحد جماعت ہے جس نے 2014میں نواز شریف حکومت کو بچایا تھا ۔
دوسری جانب تحریک انصاف نے حکمران جماعت پر دباؤ بڑھانے کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہی اپنی منصوبہ بندی شروع کردی ہے اور وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہر حال میں سڑکوں پر آنے کے لیے تیار نظر آ رہی ہے۔
اگر تحریک انصاف اس بار سٹرکوں پر آئی تو انکا احتجاج دھرنوں کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے اور انکا رویہ پہلے سے زیادہ سخت ہوگا ، موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق تحریک انصاف نے چاروں صوبوں میں اپنی تنظیموں کو بھی احتجاج کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کردی ہے ۔
جبکہ مسلم لیگ ن اور شریف خاندان تاحال پر اعتماد ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ انکے کیخلاف نہیں آئے گا اور یہ عدالتی جنگ شریف خاندا ن جیت جائے گا تاہم شریف خاندان خلاف فیصلہ آنے کے صورت میں اسے چیلنج کرنے پر بھی غور کر رہا ہے ۔
وزیراعظم کے نااہل ہونے کی صورت میں پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہیے اس حوالے سے بھی منصوبہ بندی جاری ہے کیوں کہ ماضی میں جب نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا تو اس وقت انکی اہلیہ کلثوم نواز نے سیاسی جدوجہد کی ۔
لیکن اس وقت اور اس وقت کی صورتحال مختلف ہے کیوں کہ اس وقت نواز شریف کا احتساب آمر نے کیا تھا ور اب پیپلزپارٹی کی طرح اپنی حکومت میں انکا احتساب ہو رہا ہے ، مسلم لیگ ن کے بعض حلقوں کی خواہش ہے مریم نواز کو سامنے لایا جائے ۔
لیکن اس سے قبل نواز شریف کے لیے اہم ٹاسک مسلم لیگ ن کے رہنماؤں سے رابطے مضبوط کرنا ہے ،کیوں کہ پیپلزپارٹی کے بہت سے رہنماء پہلے ہی تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں اگر مسلم لیگ ن میں بھی یہی صورتحال پیدا ہو گئی تو مستقبل کو محفوظ بنانا شریف خاندان کے لیے مشکمل ہو جائے گا۔
اگر نواز شریف سپریم کورٹ کا فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں بھی جماعت کی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو انکے 2018کے انتخابات میں بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑھے گا ۔
لیکن پی ایم ایل میں میں اتحاد شریف خاندان کے فیصلے سے مشروط ہو گا اگر وزیراعظم نے نااہل ہونے کی صورت میں خاندان سے کسی شخص کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کی یا کٹھ پتلی وزیراعظم لانے کی کوشش کی تو اس سے پارٹی میں دھٹرے بندی کا امکان بھی ہے ۔
پانامہ کیس حتمی مرحلے میں داخل ہو گیا
وقتِ اشاعت : June 24 – 2017