|

وقتِ اشاعت :   June 25 – 2017

پوری قوم آج ایک تناؤ کے ماحول میں عیدالفطر منا رہی ہے ۔ یہ تناؤ کا ماحول ہماری اپنی پیدا کردہ ہے ہمارے حکمرانوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ملک اس تناؤ کا شکار ہوگیا ہے۔

عید الفطر کے موقع پر ہم سب کو یہ دعا کرنی چائیے کہ اللہ اس ملک کو استحکام دے تاکہ ان تمام قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکے جو پاکستان میں خلفشار اور بددلی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

مگر زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم عید کے اس بابرکت موقع پر اپنے غریب رشتہ داروں ‘ عزیز واقارب اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں اور ان کو عید کی خوشیوں میں شریک کریں خصوصاً بچوں اور خواتین جو مجبور اور لا چار ہیں ۔

اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے بعد کہ ہمارے پڑوسی اور قریبی رشتہ دار جو نا دار ہیں ‘ خوشی میں شریک ہوں اس کے بعد ملکی حالات پر بھی توجہ دیں اور ملک میں ایک مضبوط رائے عامہ تیار کی جائے جو ذاتی اور مفاد پرستی کی سیاست اور حکمرانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرنے سے متعلق ہو۔

گزشتہ کئی دھائیوں سے حکمرانوں کا عوام سے کوئی تعلق نہ بن سکا بلکہ حکمرانوں کے تعلقات عوام سے زیادہ خراب اورکشیدہ ہوگئے اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ حکمرانوں نے صرف ذاتی مفادات کو ترجیح دی ۔

ان کی پوری شدت کے ساتھ حفاظت کی چنانچہ آج بے روزگاری ‘ غربت‘ افلاس ‘ بد اعتمادی عام ہے آج کل عوام ہر سیاسی شخصیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ سیاست میں ایک نیا شعبدہ باز آیا ۔

یہ مرض نہ صرف سیاستدانوں کو ہی لاحق ہے بلکہ سرکاری ملازمین اس کا زیادہ شدت سے شکار ہیں لوگوں میں یہ مثل مشہور ہے کہ سرکاری ملازم تنخواہ لے کر بھی کام نہیں کرتے ،کام کرتے ہیں تو صرف رشوت لینے کے بعد ۔

اس لیے پورے ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ سرکاری ملازمین پرخواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو، اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ سرکاری ملازمین ہی ہیں جو حکمرانوں کو چلاتے ہیں ،ان کو راستہ بتاتے ہیں ۔

ہر دور میں غلام اسحاق خان جیسے لوگ پیدا ہوئے اور حکمرانوں کو حکمرانی کے گر سکھائے اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں ۔

ملازمین کی اکثریت شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار رہے ہیں اس لئے یہ ذمہ داری ان ایماندار سیاسی اور سماجی کارکنوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ملک کو جنت بنانے میں زیادہ اہم کردار ادا کریں ۔

یہی لوگ ہیں جو کرپٹ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو لگام لگا سکتے ہیں یہ چاپلوسی اور کرپشن کے سرکل کو توڑ سکتے ہیں اس لیے ہم ان ایماندار سیاسی کارکنوں کی ہمت افزائی چاہتے ہیں جو کسی بھی نظریہ سے تعلق رکھتے ہوں ۔

اور ان کے خیالات جوکچھ بھی ہوں پاکستان کی سلامتی ‘ بقاء اور یک جہتی کے لئے یہی سیاسی اور سماجی کارکن کی امید کی کرن ہیں ۔

افسوس کا مقام ہے کہ ملک کے ہر ادارے نے عوام کو مایوس کیا ہے بلکہ اداروں نے صرف مخصوص مفادات کا تحفظ کیا ہے عوام کے مفادات کا تحفظ کسی نے بھی نہیں کیا ۔

آئیں ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم صرف اور صرف عوام کے مفادات کا تحفظ کریں گے کسی گروہ ‘ کسی پارٹی اور کسی ادارے کے مفادات کی نگرانی نہیں کریں گے ۔ موجودہ عالمی ماحول بہت زیادہ کشیدہ ہے، پاکستان کے چاروں طرف بحران زیادہ شدت اختیار کرتے جار ہے ہیں ۔

ظلم خدا کا ایران کو بھی یہ ضرورت پیش آئی کہ وہ بھی ڈرون بھیج کر پاکستان کے اندر جاسوسی کرے یا اطلاعات جمع کرے اور پاکستان کی یک جہتی اور سلامتی کو نظر انداز کرے۔

اس لیے حکومت پاکستان نے اپنے سرحد کے اندر ایرانی ڈرون کو مار گرایا اور ساتھ ہی امریکا اور بھارت کو بھی یہ واضح اشارہ دیا کہ ان کے ڈرون کارروائیوں کا بھی یہی انجام ہوسکتا ہے ۔

اس لیے امریکا اور بھارت پاکستان کے خلاف ڈرون کارروائی کا ارادہ تر ک کردیں تو بہتر ہے ورنہ اس سے علاقے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جو کسی کے بھی مفادمیں نہیں ہے ۔

دوسری طرف جنگ کے بادل ساحل مکران پر بھی صاف اور واضح طورپر دکھائی دے رہے ہیں ایران نے بھی اپنی توپوں کا رخ ساحل مکران کی طرف کردیا ہے جہاں سے سعودی اتحادی اور امریکی اور اس کے ناٹو اتحادی ایران پر حملہ آور ہو سکتے ہیں ۔

اور یہ کہ ایران نے اپنے میزائلی طاقت کا مظاہرہ بھی کردیا ۔ ایران نے شام کے شہر اور داعش کے ٹھکانے کومیزائیل سے تباہ کرکے پورے خطے کو ایک واضح پیغام دیا کہ ایران کسی بھی پڑوسی ملک یا قریبی سمندری ٹارگٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے۔