آئے دن کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور ان میں اب تک ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
اکثر واقعات میں غیر ملکی دہشت گرد ملوث پائے گئے بلکہ اکثرخودکش حملہ آور افغان تھے یا وسط ایشیائی ممالک سے ان کا تعلق تھا۔
آج تک کوئی خودکش حملہ آور مقامی نہیں نکلا، سب کے سب غیر ملکی اور زیادہ تر غیر قانونی تارکین وطن تھے ۔حالیہ واقعات نے یہ بات ثابت کردی کہ دہشتگرد جب چاہیں اورجہاں چاہیں حملہ کر سکتے ہیں۔
حملہ کرنے کی یہ صلاحیت بڑھتی نظر آتی ہے ۔ ہمارے سیکورٹی اہلکار اس پرقابو پاتے نظر نہیں آتے ۔
ایک سابق آئی جی ایف سی نے پر یس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا تھا کہ دنیا کے 25ممالک بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔
سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ بلوچستان میں عدم استحکام کے عمل کو تیز کرنے کے لئے بعض دوست ممالک بھی شامل ہیں لیکن ڈاکٹر مالک نے ان ممالک کا نام نہیں بتایا ۔
جب 1990کی دہائی میں افغانستان کی سابق انتظامیہ زمین بوس ہوگئی اور اقتدار پر افغان مجاہدین کا قبضہ ہوا تو ہم نے انہی کالموں میں حکومت پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ افغان سیکورٹی ادارے کے اہلکار بے روزگار ہوگئے ہیں ۔
ان کو روزگار فراہم کرنے سے پورے خطے میں آئندہ ایک صدی تک امن قائم ہوگا بلکہ ذاتی ملاقاتوں میں ہم نے حکومت کے اعلیٰ ترین عہدے داروں کو زبانی یہ مشورہ بھی دیا تھا مگر انہوں نے اس مشورے کو نظر انداز کیا۔
جس کے اثرات ا بھی تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد پورے خطے ‘ خصوصاً پاکستان اور افغانستان کا امن تباہ ہوگیا ہے ۔
اس پر مزید یہ کہ لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو ’’قیمتی اثاثہ ‘‘ سمجھ کر پناہ دی گئی بلکہ ان کی سرپرستی کی گئی ۔ اب لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کوئٹہ اور اس کے گردو نواح میں آباد ہیں ۔
یہی لوگ دہشت گردی کے اصل محرک ہیں اور حکومت کسی بھی قیمت پر ان کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتی حالانکہ ملک کی سیکورٹی انتظامیہ نے ان کو ایک قومی سیکورٹی رسک قرار دیا ہے بلکہ عوام الناس اور سرکاری اداروں نے ان کو ملک سے نکالنے کا مشورہ دیا ہے ۔
ملک بدرکرنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو کوئٹہ اور اس کے گردونواح سے نکال کر کیمپوں میں رکھا جائے تاوقتیکہ ان کو واپس وطن بھیجا جائے۔
کوئٹہ افغانستان کے سرحد پر واقع ہے، بنیادی طورپر یہ فیصلہ غلط تھا کہ کوئٹہ کو بلوچستان کا دارالخلافہ بنایا جائے جہاں پر افغانستان کا اثر ورسوخ بہت زیادہ ہے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے مفادات افغانستان سے وابستہ ہیں ۔
ان کی ہمدردیاں پاکستان سے زیادہ افغانستان کے ساتھ ہیں بعض سیاسی اصطلاح میں ’ ’ ڈبل ایجنٹ ‘‘ ہیں خصوصاً سرحدوں کے قریب رہنے والے لوگ۔
کوئٹہ صرف گیریژن ٹاؤن تھا، انگریز نے یہ گیریژن ٹاؤن صرف اس لیے بنایا کہ یہ سرحدوں کے قریب تر تھا ۔ کوئٹہ اور اس کا علاقہ انگریز نے خان قلات سے مستعار لیا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد اس کو ضلعی انتظامیہ کا ہیڈ کوارٹر بنایا گیا کیونکہ یہاں پر گیریژن ٹاؤن کی تمام سہولیات دستیاب تھیں ۔ اس کے بعد ون یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کو ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر اور بعدمیں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد صوبائی دارالحکومت بنایا گیا۔
بلوچستان صوبے کے زیادہ تر وسائل اس شہر پر خرچ کیے گئے، یہاں پانچ یونیورسٹیاں ‘ سات بہت بڑے اسپتال اور تمام تر اداروں کے دفاتر قائم کیے گئے جو افغانستان کی دسترس میں ہیں ۔
اس لیے سیکورٹی کے نقطہ نظر سے بلوچستان کا نیا دارالخلافہ افغان سرحد سے دورہونا چائیے جس کے لیے مناسب جگہ ساحل مکران ہے تاکہ افغانستان اور دوسرے ممالک کا اثر ورسوخ بلوچستان کے نئے دارالخلافہ پر نہ ہوں۔
ہم پہلے بھی مشورہ دے چکے ہیں کہ نیا دارالخلافہ گوادر کے قریب بنایا جائے اس کے کچھ فاصلے پر شہری آبادی ہو اس لیے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کوئٹہ پر بڑی سرمایہ کاری نہ کی جائے اور اسی فنڈ کو نئے دارالخلافہ کی تعمیر پر خرچ کیاجائے ۔
موجودہ حکومت یہ فیصلہ کرے کہ بلوچستان کا دارالخلافہ افغانستان اور دہشت گردوں کے غیض و غضب سے دور ایک انتہائی پر امن شہر ہو جہاں پرشہری پرسکون زندگی گزاریں ۔ کوئٹہ بدستور گیرژن ٹاؤن رہے اور افغان سرحد پر موجود رہے ۔
نئے اور محفوظ صوبائی دارالخلافہ کی ضرورت
وقتِ اشاعت : June 30 – 2017