رکن قومی اسمبلی اور عوامی راج پارٹی کے سربراہ جمشید دستی نے جیل کے اندر اپنے اوپر تشددکا الزام لگایا ہے ۔ صحافیوں کے سامنے انہوں نے آنسو بہاتے ہوئے الزام لگایا کہ جیل کے اندر ان پر تشدد ہورہا ہے ۔
ان کو آٹھ روز سے بھوکا رکھا گیا ہے ، اس کے کمرے میں بچھو چھوڑے گئے ہیں بطور ثبوت انہوں نے پیشی کے دوران مردہ بچھو عدالت کے سامنے پیش کیا ۔
انہوں نے مزید الزام لگایا کہ ان کو قتل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ انہوں نے پاکستان کے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے ۔ قیدیوں کے ٹرک میں ان کو پیشی کے لیے لایا گیا تھا ، وہ اسی ٹرک میں صحافیوں سے باتیں کررہے تھے لیکن پولیس اہلکار،اُن کو صحافیوں سے بات کرنے سے روک رہے تھے۔
جمشید دستی پر نہری پانی چوری کرنے کا الزام لگایا گیا ہے حقیقتاً انہوں نے نہر کھولنے کی کوشش کی تھی جس پر ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا گیا ۔
یہی پنجاب کی حکومت اور پولیس کا کمال ہے کہ اس کے لیے ہرسیاسی مخالف دہشت گرد ہے اور موقع ملتے ہی ان پر دہشت گردی کے تحت مقدمات قائم کر لیتی ہے ۔ جمشید دستی کا تعلق ایک متوسط طبقے سے ہے گزشتہ کئی انتخابات میں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست صرف اپنی ذاتی مقبولیت کی بنا پر جیتا ہے ۔
لوگوں نے ان کو نہ صرف ووٹ بلکہ نوٹ بھی دئیے تاکہ جاگیرداروں کے خلاف ایک عام آدمی انتخابات جیتے۔ تمام گزشتہ انتخابات میں انہوں نے بڑی کامیابی حاصل کی جس سے جاگیر دار طبقہ اور پنجاب کی حکومت آج تک سیخ پا ہے ۔
دوسری طرف عمران خان نے اعلانیہ طورپر نواز شریف اور مسلم لیگ کی حکومت کا تختہ الٹنے کی جارحانہ کوشش کی اور اسلام آباد میں عام زندگی کو 126دن تک مفلوج بنائے رکھا ۔
ان کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ ان کے خلاف مقدمات بھی درج نہیں کیے گئے کیونکہ وہ وسط پنجاب کا رہنماء ہے اس کی گرفتاری سے ملک میں قیامت آسکتی تھی ۔ مگر جمشید دستی ایک عام آدمی ہے اور ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اس لیے پنجاب کے ظالم حکمرانوں کا غصہ آج تک ٹھنڈا نہیں ہورہا ۔
کیا فضول بات ہے کہ ملک کا ایم این اے جس کے پاس زمین ہی نہیں ہے وہ پانی چوری کررہا تھا ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا اور اس پر طرہ یہ کہ پرویزمشرف کو بھاگنے کے لئے محفوظ راستہ فراہم کیا گیا ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پنجاب پولیس اور جیل انتظامیہ اپنے طورپر کسی ایم این اے پر تشدد نہیں کرتی تاوقتیکہ حکام بالا کی ہدایات اور واضح احکامات نہ ہوں۔ یہ ناممکن ہے کہ پولیس اہلکار یا جیل حکام اپنے طورپر ایم این اے جمشید دستی پر تشدد کریں ۔
اس میں وزیراعلیٰ کی مرضی ضرور شامل ہوگی کہ ایک عام آدمی نے ان کی حکم عدولی کی ہے لہذا اس کو سزا دی جائے ۔ پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لیا ہے اورر پورٹ طلب کی ہے ۔
اس سے قبل قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اسپیکر سردار ایاز صادق سے جمشید دستی کو ایوان میں پیش کرنے کی درخواست کی ۔ اس کے باوجود ان کو قومی اسمبلی میں نہیں لایا جارہا۔
اسکے مقابلے میں سنگین سماجی اور معاشی جرائم میں ملوث اراکین اسمبلی کو اسمبلی میں پیش کیاجاتا رہا ہے بلکہ حال ہی میں ایک رکن اسمبلی کو پولیس لاک اپ میں اےئر کولر فراہم کیاگیا ۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ان کو بغیر ہتھکڑی لگائے پیش کیا گیا حالانکہ وہ دہشت گردی کے دفعات کے تحت پولیس افسر کے قتل کا ملزم ہے کہ اس نے جان بوجھ کر پولیس افسرکو اپنی سرکاری گاڑی سے کچل ڈالا ۔
ریاست کے دو الگ الگ پیمانے ہیں مجرم ہمارا ہے تو اس کو زیادہ سے زیادہ سہولیات پہنچاؤ اور ملزم ہمارا نہیں ہے تو اسکی نہ صرف بے عزتی کرو بلکہ اس پرحد درجہ تشدد بھی کرو ۔
جمشید دستی اور مجید اچکزئی کے مقدمات ابھی عدالت میں ہیں عوام کی عدالت اور سول سوسائٹی حکومت اور عدلیہ سے کہیں زیادہ طاقتور اور با اثر ہے وہ ایسے تمام مقدمات پر نگاہ رکھی ہوئی ہے ایک طرح سے ان عدالتوں پر اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ عوام الناس کی بھی نگاہ ہے ۔
اور یہ امید کی جاتی ہے کہ ہر شخص کو جائز انصاف ملے گا اور متاثرہ خاندان کی داد رسی ضرور ہوگی۔ اس لیے سیاسی پارٹیاں اور ان کے رہنماء اپنا فیصلہ عوام الناس پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں اور میڈیا پر ناجائز الزامات لگانا بند کریں کیونکہ اس سے ان کی مقبولیت میں فرق آسکتا ہے ۔