|

وقتِ اشاعت :   July 2 – 2017

سالوں سے سندھ کے عوام اور سندھ کی حکومت کو وفاقی اداروں کے خلاف شدید قسم کی شکایات تھیں خاص کر کچھ اداروں یعنی سندھ رینجرز او ر نیب اس میں سرفہرست ہیں لیکن ان شکایات کا علم ہونے کے بعد بھی سندھ کے عوام سے متعلق ان کا رویہ تبدیل نہ ہوا ۔

مجبوراً سند ھ کی حکومت نے دوسری راہ تلاش کرنے کی کوشش کی ، اس دوران سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے یہ منصوبہ پیش کیا کہ سندھ کی حکومت اپنی ایک احتساب کمیشن بنائے چنانچہ اس نقطہ نظر کو سیاسی حمایت حاصل ہوئی اور اس تجویز کو باقاعدہ طورپر سندھ کی کابینہ میں پیش کیا گیا ۔

اور گزشتہ روز اس کی با قاعدہ منظوری دی گئی کہ اس کو قانون کی صورت میں سندھ اسمبلی کے اگلے اجلاس میں پیش کیاجائے گا۔ سندھ میں اس بات پر شدید رد عمل پایا گیا جب نیب اور دیگر وفاقی اداروں نے سیاسی بنیاد پر کارروائیاں شروع کیں اور وفاقی حکومت کی مخالف قوتوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔

ابتداء میں سندھ کی سیاسی قوتوں بلکہ سندھ کی حکومت نے مہذبانہ طریقے سے احتجاج کیا یہ بات وزیر داخلہ یا وزارت داخلہ کے سمجھ نہیں آئی اور انہوں نے سندھ کو پاکستانی وفاق کا ایک اہم ترین صوبہ ماننے کے بجائے ایک نو آبادیاتی یونٹ یا ایک کالونی کے طورپر ڈیل کیا ۔

بلکہ دوسرے الفاظ میں مرکزی حکومت نے وفاق پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور بادشاہوں کی طرز پر چھوٹے صوبوں پر آمرانہ احکامات نازل کرتے رہے ،ان کو مقامی رائے عامہ اور عام شہریوں کے عزت نفس کا کوئی احترام نہیں ہے ۔

یہی وجہ تھی کہ سرکاری اجلاس میں زبردستی گھس کر متعلقہ وزیر کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک سرکاری اجلاس کی با قاعدہ صدارت کررہے تھے اس طرح سے سندھ کی منتخب حکومت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔

وزیراعلیٰ سندھ جو سندھ کے قانونی منتظم اعلیٰ ہیں ان سے اس وزیر کی گرفتاری کی اجازت نہیں لی گئی۔یہ عمل بذات خود غنڈہ گردی میں شمار ہوتا ہے اس طرح وفاقی اکائی کے قانونی وقار کو مجروح کیا گیا۔

اس کے بعد نیب اور دوسرے وفاقی اداروں کے افسران بغیر اجازت لیے سندھ حکومت کے ایک بلڈنگ میں گھس آئے اور سرکاری فائل اٹھا کر لے گئے یہ غنڈہ گردی کی دوسری مثال تھی ۔

اس کے بعد سندھ حکومت جو پاکستانی وفاق کی ایک برابر کی اکائی ہے ‘ کو سوچنا پڑا کہ ان غیر قانونی اور غیر شریفانہ حرکات کا سدباب کیاجائے ۔ وفاقی اکائی کی حیثیت سے سندھ کے پاس یہ آئینی حق موجود ہے کہ وہ اپنے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرے ۔

چنانچہ یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ وفاقی ادارہ نیب کو سندھ سے بے دخل کیاجائے اور اس کو صرف اور صرف وفاقی اداروں اور ملازمین تک محدود رکھاجائے ۔

اس کے لئے موجودہ قوانین میں مناسب ترامیم کی جائیں اور سندھ کا صوبائی احتساب کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ وہ زیادہ اہم اور حساس معاملات پر بھی فیصلے کر سکے اور کرپشن کو لگام دیاجا سکے ۔

اگلے اجلاس میں سندھ کا یہ نیا قانون پیش ہوگا۔ مبصرین کی رائے ہے کہ سندھ میں نیب کے خلاف اتنی نفرت ہے کہ ایسا قانون سندھ اسمبلی عوامی دباؤ کے پیش نظر فوراً منظور کرے گی۔

حکومت بلوچستان کو بھی اس بات پر غور کرنا چائیے کہ وہ سندھ کے نقش قدم پر چلے اور اپنا اور زیادہ طاقتور احتساب کمیشن قائم کرے تاکہ تین چھوٹے صوبوں سے نیب کو جلد سے جلد رخصت کیاجائے ۔

بلوچستان میں نیب نے بڑے بڑے چھکے لگائے ہیں ۔ لوگ ان سے زیادہ ناراض ہیں کیونکہ ’’ سرکاری ‘ ‘ لوگوں کو کھلے عام کرپشن کی اجازت ہے ۔

مقامی لوگوں کو زیادہ نشانہ بنایا گیا جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف اور صرف مقامی لوگ اور سرکاری اہلکار کرپٹ ہیں اور دوسرے لوگ فرشتے ہیں ۔

مسئلہ سیاسی اور آئینی ہے نیب کا قیام جنرل پرویزمشرف کے دور میں لایا گیا ، ان کا ایک سیاسی ایجنڈا تھا وہ ایک فرد واحد تھا جو دائمی طورپر ملک پر حکومت کرنا چاہتا تھا جب اس کو فوج کے کمانڈ اور بعد میں صدارت سے بر طرف کیا گیا تو اس کے ادارے کو بھی بند ہونا چائیے ۔

کیونکہ یہ ادارہ وفاقیت کی روح کے منافی ہے جو وفاق کی جانب سے صوبائی معاملات میں مداخلت کرتا ہے، احتساب کا تعلق امن عامہ سے ہے ، یہ ایک صوبائی معاملہ ہے ۔

اس لیے وفاق خود نیب کے خاتمے کا اعلان کرے اور صوبائی اختیارات میں دخل اندازی کو فوری طورپر بندکرے۔ ویسے بھی نیب کی پالیسی سے کرپشن میں کوئی کمی نہیں آئی پہلے لوگ لاکھوں میں لوٹتے تھے اب اربوں روپے طاقتور لوگ ہڑپ کررہے ہیں ۔