پاکستان کا موجودہ غیر جمہوری مرکزیت والا نظام ناکام ہوچکا ہے ۔ یہ سیاسی مدبرین کانہیں بلکہ نوکر شاہی کا دیا ہوا نظام ہے جس کے بانی سابق گورنر جنرل ملک غلام تھے ۔
پاکستان کے قومی رہنماؤں کو بے دخل کرکے نوکر شاہی نے جس دن حکومت پر قبضہ کر لیا اسی دن سے وفاقی پارلیمانی نظام کو لپیٹ دیا گیا اوریوں نوکر شاہی نے اپنی ذاتی حکومت قائم کرلی۔
اس کے بعد سکندر مرزا ‘ ایوب خان ‘ یحییٰ خان ‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف جیسے حکمران مطلق العنان سربراہان مملکت تھے جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھے ۔ پی پی پی اور ن لیگ کی حکومتیں بھی اس نوکر شاہی کے زیر سایہ تھیں اور ہمیشہ ان کی خوشنودی کے لئے کام کرتی رہیں ۔
یہ نقلی جمہوریت ہے جو ہر فیصلہ کرنے سے پہلے افسر شاہی سے اجازت لیتی ہے۔ پاکستان اس وقت ایک بہت بڑے اور سنگین بحران سے گزر رہا ہے ۔ موجودہ نظام حکومت اور موجودہ سیاسی قیادت یہ اہلیت نہیں رکھتی کہ اس بحران کا مقابلہ کرے ۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ عوام الناس کی حقیقی حمایت حاصل کیجائے اور عوامی قوت سے اس سرزمین کا دفاع کیاجائے ۔ مودی کے دور ہ کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ امریکا بھارت کی ہر معاملے میں حمایت کرے گا ۔
پہلے امریکا گزشتہ ساٹھ سالوں سے ہمارا اتحادی تھا اور بھارت روس کا لیکن اب امریکا نے پالیسی بدل دی ہے اوراعلانیہ طورپرنہ صرف بھارت کا اتحادی بن گیا ہے بلکہ افغانستان میں بھارت سے مددکی درخواست کررہا ہے ۔
دوسرے الفاظ میں امریکا نے افغانستان کی چوہدراہٹ بھارت کے حوالے کردی ہے ۔ اس طرح سے ہمارے گرد گھیرا تنگ کیاجارہا ہے ۔ امریکا، بھارت اور افغانستان کا اعلانیہ اتحا دپاکستان کے خلاف ہے ۔
اس لیے ملک کے اندر نئی صف بندی انتہائی ضروری ہوگئی ہے ، اس کے لئے حقیقی حکمرانوں کو بلوچوں ‘ پشتونوں ‘ پنجابیوں ‘ سندھیوں ‘ سرائیکی اور ہندکو بولنے والے لوگوں کی زبردست حمایت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ حمایت آسانی سے مل سکتی ہے اگر ان کو ان کے وطن پاکستان کے اندر رہتے ہوئے آزاد اور خودمختار بنایاجائے اور ان کی مرضی سے ان علاقوں میں مقامی حکومتیں قائم کی جائیں ۔ اس کیلئے ضروری ہے پاکستان کے اندر رہتے ہوئے تاریخی صوبے بحال کیے جائیں۔
ہر قوم اپنی قومی سرحدوں میں رہے ۔ سرائیکی علاقے ‘ گلگت بلتستان کو قومی صوبوں کا درجہ دیاجائے اور فاٹا کو کے پی کے میں شامل کیاجائے ۔ بلکہ افغانستان کے مفتوحہ علاقے جو انتظامی طورپر بلوچستان میں ہیں ان کو بھی کے پی کے یا ایک پشتون صوبے میں شامل کیاجائے ۔
بلوچستان صوبے کی دوبارہ حد بندی کی جائے ، ڈیرہ غازی خان ‘ سابقہ ضلع جیکب آباد اور اس کے ملحقہ علاقے بلوچستان میں شامل کیے جائیں ۔ان تمام قومی صوبوں کو مکمل خودمختاری دی جائے بلکہ ان کو ٹیکس لگانے کے اختیارات بھی دئیے جائیں ۔
وفاقی حکومت کے پاس صرف دفاع اور امور خارجہ اور ٹیکس کے صرف اتنے اختیارات ہوں جس سے صرف ملکی امور کو چلایا جا سکے ۔ بقیہ تمام اختیارات قومی صوبوں کے حوالے کیے جائیں۔
سب سے اہم ترین مسئلہ موجودہ حالات میں سیکورٹی کا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے غیر قانونی تارکین وطن کو جلد سے جلد ملک بدرکیاجائے ان میں سرفہرست افغان بعد میں بھارتی ‘بنگالی اور برمی شامل ہیں۔
غیر ملکیوں کو پاکستان کے کسی بھی حصے میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اس لیے جتنی جلد ممکن ہو سکے ان کو ملک بدر کیاجائے یا ان کو کیمپوں میں رکھاجائے تاکہ وہ ملک کی سلامتی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر سکیں۔
بعض عناصر اس بات کی حمایت کررہے ہیں کہ افغان سرحد پر باڑ لگائی جائے بلکہ فوج کے سربراہ نے پاراچنار میں یہ اعلان بھی کردیا کہ پہلے حساس ترین علاقوں میں باڑ لگائی جائے گی ۔
مگر سوال یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی باڑ کے اس طرف رہتے ہیں اور کسی کا اتہ پتہ معلوم نہیں کہ وہ کب دہشت گردی کی واردات کرتے ہیں ۔ لہذا باڑ لگانے سے زیادہ اہم غیر قانونی تارکین وطن کی جلد سے جلد واپسی ہے کہ اس سے پہلے حالات مزید خراب ہوں ۔
بلکہ بلوچستان اور کے پی کے کی حکومتوں کو بھی کہاجائے کہ وہ غیر ملکی تارکین وطن کو پہلے ملک سے نکالنے کے عمل میں تعاون کریں تاکہ یہ دونوں سرحدی صوبے محفوظ بنائے جائیں اور یہاں بربادی کے خطرات کو کم سے کم کیاجائے ۔ ایک متحدہ قوم بحران کا زیادہ بہتر اندازمیں مقابلہ کرسکتی ہے۔