|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2017

جوں جوں 10جولائی کا دن قریب آرہا ہے جب جے آئی ٹی کو اپنی مکمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانی ہے ، مسلم لیگ ن کے نوجوان وزراء کا لہجہ تلخ تر ہوتا جارہا ہے ۔

وہ کھلے بندوں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو ختم کیاجارہا ہے، ان کی حکومت کو نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ وہ تندوتیز الفاظ میں بلواسطہ اور بلا واسطہ جے آئی ٹی بلکہ سپریم کورٹ پر روزانہ دباؤ بڑھارہے ہیں ان میں سعد رفیق وزیر ریلوے پیش پیش ہیں۔

بعض بڑے نیوز چینلز ان کو اتنی کورویج دے رہے ہیں لگتا ہے شاید مسلم لیگ ن ان چینلز کو اےئر ٹائم کی قیمت الگ سے ادا کررہی ہے ۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اتنے بڑے بڑے نیوز چینلز قومی خبروں کا وقت بھی ایک وزیر کو دیں اور اسکی تقریر براہ راست نشر کریں ، یہ روپے کا کمال ہے اور پیسہ حقیقت میں بولتا ہے ۔

وزراء کے بیانات سے وفاقی حکومت کی پریشانی جھلکتی ہے کہ بہت جلد کچھ ہونے والا ہے ۔ وفاقی وزراء کے لہجہ سے ان کی گھبراہٹ ظاہر ہورہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ پانامہ کیس کی کارروائی خاتمے کے قریب ہے دس جولائی کو جے آئی ٹی اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گی اس کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے گا۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ نواز شریف یہ برداشت نہیں کریں گے کہ سپریم کورٹ ان کو نا اہل قرار دے اورا س کی سیاست کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کرے ۔ بلکہ یہ ممکن ہے کہ وہ اس سے قبل اسمبلی توڑدیں اور نئے انتخابات کا اعلان کریں تاکہ سپریم کورٹ کا ان کے خلاف آنے والا فیصلہ غیر موثر ہوجائے اوروہ سیاست میں بادشاہت کے فرائض بدستور سرانجام دیتے رہیں ۔

لیکن مبصرین کا خیال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہر حال میں موثر رہے گا اور ممکن ہے کہ موصوف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیاست سے نا اہل قرار دیا جائے۔

مسلم لیگ کی حکومت اور وزراء کی زبردست گھبراہٹ سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ حکومت اور مسلم لیگ کے رہنماء مایوس ہوگئے ہیں اور اس لیے یہ الزامات لگار ہے ہیں کہ ان کو نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔

ادھر مخالف سیاسی جماعتیں اور رہنما ء زیادہ سخت موقف اختیار کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں اور حکومت اور اس کے وزراء پر یہ الزام لگارہے ہیں کہ وہ مایوسی کے عالم میں جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ پر ہر طرف سے دباؤ بڑھا رہے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہے کہ پانامہ کیس میں نواز شریف کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔

سزا ضرور ملے گی وہ کیا ہوگی ، کسی کو معلوم نہیں ۔ البتہ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ نواز شریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے بے دخل ہوجائیں گے ۔ حکومتی وزراء یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ نواز شریف کو نشانہ بنایا جارہا ہے ، ان کے ذاتی اور خاندانی کاروبار پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں ۔

دوسری طرف ان کے مخالفین یہ الزام لگارہے ہیں کہ اتنی بڑی دولت انہوں نے صرف اور صرف سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال کے بعد بنائی۔ روز اول سے سیاست میں ان کی دلچسپی صرف اور صرف دولت کمانے کی غرض سے ہے ،روپیہ اکٹھا کرکے مخالفین کو دولت کے زور پر انتخابات میں شکست دینا ہے ۔

صرف لاہور کے قومی اسمبلی کے ایک حلقہ کود وبارہ جیتنے کے لئے انہوں نے دو ارب سے زیادہ خرچ کیے ۔ یعنی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں انہوں نے خریدیں تھیں دنیا کی کوئی طاقت ان کو انتخابات میں شکست نہیں دے سکتی ۔

تجارت میں تمام مافیا ان کی پشت پر ہے ۔ صرف ایک مافیا کو انہوں نے 180ارب روپے کا پیکج دیا ۔ سیٹھ حضرات اور دولت مند ان کے ساتھ ہیں ، سیاستدان نہیں ۔

ممتاز بھٹو ‘ لیاقت جتوئی ‘ جسٹس غوث علی شاہ اور دیگر کو یہ شکایات تھیں کہ وہ ان کے فون تک سننا گوارا نہیں کرتے ، ان کے مقابلے میں ایک نا اہل اور چور تاجر کی زیادہ اہمیت ہے ۔

اس لیے ان کو صرف دولت کمانے میں دلچسپی ہے اور سیاست اس دولت کو بڑھانے کا ذریعہ ۔ پورے چار سالوں میں انہوں نے صرف چار بار قومی اسمبلی کا رخ کیا ۔

اب شاید پانی سر سے اوپر ہوچکا ہے ، خود انہوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، زیادہ سنجیدہ وزراء ان کا دفاع نہیں کررہے ، صرف چند ایک نوجوان وزراء اور ایم این اے ان کا دفاع کرتے نظرآتے ہیں ۔