نیشنل پارٹی آج کل کچھ زیادہ ہی متحرک نظر آرہی ہے یہ بلوچ قوم پرست ‘ آزاد خیال یا لبرل افراد کی ایک وسیع النظر پارٹی ہے ۔ ان کے اکثر لیڈر اپنے آپ کو نیپ کے وارث گردانتے ہیں۔
میر غوث بزنجو کو اپنا رہبر اور رہنما بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے ایک ایسا سیاسی فیصلہ کیا جس سے سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار حیران ہوئے ۔
وہ فیصلہ یہ تھا کہ چاغی کی قومی اسمبلی کی خالی نشست پر اپنا کوئی امیدوار کھڑ انہیں کرے گی حالانکہ چاغی بلوچ قوم پرستی کا بہت بڑا مرکز رہا ہے بلکہ یہ شاعر انقلاب میر گل خان نصیر کا حلقہ انتخاب تھا ۔
اس غریب اور مفلوک الحال شاعر عوام نے ماربل کنگ میر نبی بخش زہری کو عبرتناک شکست دی ۔ان کو انتخابی مہم کے لئے پارٹی نے ایک پرانی جیپ فراہم کی تھی اورچاغی کے عوام نے ان کو منتخب کیا۔
یہ 1790کے انتخابات تھے جو ملک میں پہلے اور آخری منصفانہ انتخابات تھے جس میں ریاست اور ریاستی اداروں نے مداخلت نہیں کی تھی اس کے نتیجے میں نیشنل عوامی پارٹی نے 2/3تہائی اکثریت حاصل کی۔
انتخابات واضح طورپر جیتنے کے بعد نیپ نے ایک اتحادی حکومت بنائی اور جے یو آئی کو اتحادی چنا ۔ بلوچستان میں اسپیکر کا عہدہ جے یو آئی کو دیا گیا جبکہ کے پی کے میں مفتی محمود کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا ۔
اس کا مقصد پی پی پی کی فسطائی حکومت کا مقابلہ کرنا تھا اور اسکے ہر کاروائی کی مزاحمت مقصود تھی ۔ اب حیرانی کی بات ہے کہ نیشنل پارٹی نے قوم پرستوں کے حلقہ انتخاب کو رجعت پسند مذہبی تنگ نظر پارٹی کے حوالہ کیا اور کہا کہ یہ سیٹ ایڈ جسٹمنٹ Seat adjustment ہے۔
اس کا سیاسی طورپر صاف مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ یہ منفی سیاست ہے ۔ اس کا مقصداس حلقہ میں زیادہ آزاد خیال قوم پرست جماعت کو ہر حال میں ہرانا ہے اس کوعام سیاسی زبان میں منفی ووٹنگ قرار دیا جاتا ہے ۔
اگر نیشنل پارٹی کو انتخابات میں فتح کے امکانات نظر نہیں آتے تو خاموش رہتی ،کسی کی حمایت نہ کرتی ، پارٹی کارکنوں اور ووٹروں کو اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے کی اجازت دیتی مگر یہ آزادی ۔
انہوں نے اپنے حامیوں اور ووٹروں کو نہیں دی اور منفی سیاست اور داؤ پیچ پر زیادہ انحصار کیا اورپارٹی کارکنوں کو پا بند کیا کہ ملا پارٹی کو ووٹ دیں۔این پی پوری زندگی رجعت پسندی کے خلاف مہم چلاتی رہی ۔
مکران میں رجعت پسندی کے خلاف لیڈر شپ ان کے پاس تھی آج معلوم نہیں کیا ہوا کہ نیشنل پارٹی رجعت پسند پارٹی کی پشت پر ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت میں جمعیت علمائے اسلام اور نیشنل پارٹی پاکستان مسلم لیگ کے اتحادی ہیں ۔
مگر دونوں پارٹیاں الگ الگ باتوں اور وجوہات کی بناء پر مسلم لیگ کے اتحادی ہیں ان میں کوئی مشترکہ پوائنٹ نہیں ہے ۔ پارٹی کے صدر نے کل ہی پریس کلب میں یہ یاد دہانی کرواہی کہ نیپ نے بھی جے یو آئی کیساتھ اتحادی حکومت بنائی تھی۔
صاحب صدر سے عرض ہے کہ وہ حکومتی اتحاد انتخابات جیتنے کے بعد بنایا گیا تھا جبکہ جے یو آئی اور نیشنل پارٹی کا یہ اتحاد زیادہ آزاد خیال اور قوم پرست پارٹی کے خلاف ہے ۔
یہ منفی سیاست ہے ، یہ منفی ووٹنگ کی ابتداء ہے کہ زیادہ مضبوط اور مقبول پارٹی کو شکست سے دو چار کیا جائے اس کی مثال صرف خضدار یا جھالا وان میں مل سکتی ہے جب نیشنل پارٹی نے جے یو آئی کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈلوائے اور بلوچستان نیشنل پارٹی کو شکست سے دو چار کیا۔
اب چاغی کے حلقے میں اسی ڈرامے کو دہرایا جارہا ہے ہونا تو یہ چائیے تھا کہ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان اتحاد ہوتا جو نظریاتی طورپر ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں ۔
لیکن جے یو آئی اور نیشنل پارٹی حکومتی نظام کا حصہ ہیں ان کے مفادات مشترکہ ہیں اس لیے نیشنل پارٹی نے بغض معاویہ میں جے یو آئی کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔
یہ واضح ہے کہ نیشنل پارٹی چاغی میں اپنی تمام تر حمایت کھو چکی ہے زیادہ تر لوگ بی این پی کی حمایت کررہے ہیں اس کا انداز ہ اختر مینگل کے نوشکی اور خاران کے جلسہ عام میں ہوچکا ہے ۔
بی این پی زیادہ طاقتور جماعت بن کر ابھری ہے اس لیے حکومتی حلقے اس کے خلاف ایک بڑا متحدہ محاذ بنانے کی کوشش کررہے ہیں صرف ان امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہوگی جو بی این پی کے ووٹ تقسیم کریں گے۔
اس انتخابی معرکہ میں پختون خوا کا کہیں نام ونشان بھی نہیں ہوگا ۔ گزشتہ انتخابات میں پی ایم اے پی کو یہ نشست تحفہ میں حکومت اور حکومتی اہلکاروں نے دی تھی بلکہ اس کے ساتھ کوئٹہ شہر کے تین صوبائی حلقے بھی تاکہ وہ اتحادی حکومت میں زیادہ موثر کردار ادا کرے اور حکومت مخالف عناصر کو زیادہ سخت اذیتیں دی جائیں۔
اب چاغی کے انتخابات میں ڈرگ مافیا کا کلیدی کردار ہوگا کہ سرکاری امیدوار کو ہر حال میں جتایا جائے اور حکومت مخالف پارٹی کو شکست سے دوچار کیا جائے۔