|

وقتِ اشاعت :   July 6 – 2017

جے آئی ٹی کی تفتیش آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہے .جے آئی ٹی کے ممبران قطر پہنچ گئے جہاں وہ قطری شہزادہ کے دعوے کی تصدیق کریں گے کہ منی ٹریل دوحہ سے لندن گیا ہے اور نواز شریف منی لانڈرنگ میں ملوث نہیں ہے۔

یہ تفتیش کا ایک افسوسناک پہلو ہے کہ پوری پاکستانی ریاست جے آئی ٹی کے روپ میں قطری شہزادے کے دربار میں دست بستہ حاضری دے رہی ہے۔ قانون اور آئین کی روح سے قطری شہزادہ ایک گواہ ہیں ۔

اگر وہ اپنے’’ دوست‘‘ کو بچانا چاہتے تھے تو وہ پاکستان کی عدالت اور اس کے تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہو کر شریف خاندان کے الزامات کے خلاف گواہی دیتے چونکہ وہ قطر کا شہزادہ ہے اس لئے انہوں نے پاکستان آنے سے انکار کیا۔

دوسری طرف ن لیگ کے وزراء اور رہنماؤں نے جے آئی ٹی پر دباؤ بڑھایا کہ جے آئی ٹی قطری شہزادے کے دربار میں حاضر ہوکر ان کا بیان ریکارڈ کرے۔ ن لیگ کی حکومت نے ایک نئی روایت ڈالی کہ سپریم کورٹ اور اس کے نامزد کردہ جے آئی ٹی کو مجبور کیا جائے کہ وہ قطر جائے۔

تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی نے یہ مطالبہ اس لئے تسلیم کیا تاکہ اس کی رپورٹ زیادہ جامع اور وسیع ہو، ن لیگ اور شریف خاندان کو یہ موقع نہ ملے کہ اصلی اور مرکزی گواہ قطری شہزادہ ہے اور جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ نے اس کو نظر انداز کیا اور ان کی گواہی شامل نہیں کی ۔

چنانچہ اس دلیل کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جے آئی ٹی کی ایک ٹیم کو قطر روانہ کیا جائے۔ اب شریف خاندان کو یہ موقع نہیں ملے گا کہ وہ فیصلہ کی مخالفت اس بنا ء پر کرے کہ قطری شہزادہ کی گواہی شامل نہیں۔

ظاہر ہے کہ اتنی پیچیدہ صورت حال میں قطری شہزاہ شریف خاندان کا خاطر خواہ دفاع نہیں کرسکے گا۔ بعض مبصرین کو یقین ہے کہ قطری شہزادے کی گواہی سے شریف خاندان کو زیاہ نقصان پہنچنے کا اعتمال ہے ۔

یہ توممکن نظر نہیں آتا کہ شریف خاندان، ان کے ملازمین دن رات قطری شہزادے کو بریف کرتے ر ہیں اوروہ مٹھو کی طرح جے آئی ٹی کے سامنے وہی باتیں دہرادے۔

بہر حال یہ ایک اچھی روایت نہیں ہے کہ شریف خاندان کے مفادات کے تحفظ کے لئے سپریم کورٹ اور اس کی نامزد کردہ جے آئی ٹی کو قطری شہزادے کے دربار میں حاضر کیا جائے کیونکہ انہوں نے شریف خاندان کے دفاع میں ایک خط تحریر کیا تھا۔

دوسری جانب ن لیگ کے وزراء اور رہنماؤں کا لہجہ زیادہ تلخ ہوتا جارہا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا رہنماء اور ملک کا وزیر اعظم شدید ترین مشکلات کا شکار ہے شاید اس کے بچنے کے امکانات محدود نظر آتے ہیں ۔

مرکزی وزراء اور ن لیگ کے رہنماء بد زبانی پر اتر آئے ہیں اور انتہائی قابل اعتراض زبان استعمال کررہے ہیں جو کسی منتخب وزیر کے شایان شان نہیں ہے۔ وہ ریاست کے نمائندے ہیں ۔

ان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ گندی زبان استعمال کریں بلکہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ مقدمہ ہار چکے ہیں اور اپنا بوریا بستر باندھنے سے پہلے سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو بلیک میل کرکے فیصلہ اپنے حق میں بدلنا چاہتے ہیں۔

سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کوتو چھوڑ دیں، ایک عام پاکستانی بھی یہ حق رکھتا ہے کہ وہ وزیر اعظم اور اسکے خاندان سے یہ سوال کرے کہ اتنی بڑی دولت کہاں سے آئی؟ جدی پشتی ارب پتی، وہ تمام گجراتی بولنے ولے سیٹھ جو قیام پاکستان کے وقت ارب پتی تھے وہ سب کے سب غائب ہوئے۔

بڑے ارب پتی شریف خاندان یااس کے قریبی لوگوں کے لیے کسی بھی بزنس میں اتنی بڑی دولت اتنے کم وقت میں حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ہاں یہ صرف اس وقت ممکن ہے کہ حکمران سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کریں اور دولت اکٹھا کرنا شروع کردیں ۔

1983 میں ان کی دولت کتنی تھی جب وہ وزیر خزانہ پنجاب تھے، بعد میں وزیر اعلیٰ بنے، پورے پنجاب میں جتنے کارخانے لگے اس کی تمام مشنری اور پرزہ جات کو اسکریپ ظاہر کر کے در آمد کی گئی۔

اس طرح سے اربوں روپے کی ٹیکس چوری میں شریف خاندان ملوث ہے۔ میگا پروجیکٹس میں شریف خاندان کی دل چسپی کا واحد مقصد میگا کرپشن ہے جو شریف خاندان دور حکومت میں شروع ہوئیں اور اختتام پذیر ہوئیں۔

صرف وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو آئندہ انتخابات میں نا اہل قرار دینا کافی نہیں اگر جرم ثابت ہوجائے تو ان کی ساری جائیداد ضبط کی جائے اور ان کو زندگی بھر جیل میں رکھا جائے تاکہ آئندہ کوئی حکمران کرپشن کی طرف مائل نہ ہو۔ اگر جرم ثابت نہ ہو تو ان کو ان تمام الزامات سے بری کیا جائے۔