بلوچستان میں ایک ہی دن میں دہشتگردی کے دو واقعات پیش آئے ان میں ایک واقعہ کوئٹہ میں پیش آیا جہاں پر پیشہ ور دہشتگردوں نے بی این پی کے رہنماء ملک نوید دہوار اور ان کے سرکاری محافظ کو موقع پر ہی گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔
دوسرا اہم واقعہ پروم میں پیش آیا جہاں پر وزیر صحت رحمت صالح بلوچ کے قافلے پر راکٹ داغے گئے۔ اتفاق سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ بہر حال یہ ایک انتہائی سنگین نوعیت کی دہشتگردی کا واقعہ ہے۔
پروم ایک دور دراز علاقہ ہے جو ایرانی بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے اس علاقہ پر ایرانی مسلح افواج اور سرحدی محافظین راکٹ فائر کرتے رہے ہیں اور مقامی آبادی کو ہراساں کرتے رہے ہیں۔
مشاہدے میں آیا ہے ایرانی سرحدی افواج اس قسم کی کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں اکثر وہ ٹارگٹ کرکے راکٹ داغتے رہے ہیں ۔گزشتہ دنوں ایک راکٹ چلتی ہوئی گاڑی پر گری جس سے ایک شخص ہلاک ہوا، اس قسم کی کارروائیوں کے خلاف مقامی انتظامیہ ایران سے احتجاج کرتی رہی ہے۔
ایران کا خیال ہے کہ مذہبی جنونی عناصر اس علاقے سے ایران پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں گمان ہے کہ سرحدی محافظین موٹر گاڑیاں دیکھ کر اشتعال میں آگئی ہوں اور سمجھے ہوں کہ ان پر حملہ ہونے والا ہے تو اپنی دفاع میں راکٹ فائر کیے ہوں۔
یہ عین ممکن ہے کہ ایران کے دور دراز علاقوں کے سرحدی محافظین نے یہ راکٹ داغے ہوں تاہم حکومت پاکستان تحقیقات کرے اور اصل صورتحال سے عوام کو آگاہ کرے۔ چونکہ مقامی لوگ ملوث نظر نہیں آتے اس لئے وزیر صاحب نے اپنا جلسہ بھی کیا۔
دوسری جانب کوئٹہ کا واقعہ ہولناک تھا جس میں سیاسی رہنماء کو جس کی کسی سے بھی دشمنی نہیں، درجنوں گولیاں مار کرہلاک کردیا گیا۔ یہ سیاسی دہشتگردی اور سیاسی مخالفین کو دن دہاڑے قتل کرکے راستے سے ہٹانے کا بھیانک ترین واقعہ ہے ۔
شاید بی این پی کے بعض رہنماؤں کو حکومت پر اعتماد نہیں اس لئے وہ اس کی تحقیقات کامطالبہ نہیں کرتے۔ گزشتہ روز اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے بی این پی کے رہنماؤں اور مقتول رہنماء کے رشتہ داروں نے حکومت پر سنگین الزامات لگائے اور یہاں تک کہہ دیا کہ حکومت نے دوبارہ ٹارگٹ کلنگ شروع کردی ہے ۔
انہوں نے مثال دی کہ ان کے سابق سیکرٹری حبیب جالب اور بڑے رہنماء نور دین مینگل کو اسی طرح ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔