|

وقتِ اشاعت :   July 9 – 2017

کشمیر سے متعلق دور رائے نہیں ہیں کہ اس کے حل کے بغیر پورے خطے میں امن کاقیام نا ممکن ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس کا مقصد کشمیر کے مسئلے کو اجاگرکرنا اور بین الاقوامی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ کشمیرہی کی وجہ سے پورے خطے میں دہائیوں سے کشیدگی جاری ہے ۔

بلکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں اوراب بھارت چوتھی جنگ کی تیاری کرتا نظر آرہا ہے اس کے لئے لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے بلکہ حالیہ دنوں میں بھارت نے لائن آف کنٹرول پراپنی فوجی قوت میں مزیداضافہ کردیا ہے ۔

اور دن بدن پاکستان پر دباؤ بڑھارہا ہے کہ کشمیر کے دعوے سے دستبردار ہوجائے۔ گزشتہ ایک سال سے کشمیریوں نے مکمل طور پر بھارتی قبضہ کے خلاف بغاوت کررکھی ہے مقامی انتظامیہ اور کٹھ پتلی حکومت کو بالکل مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔

کشمیری عوام آئے دن سڑکوں پر مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں جس پر بھارتی مسلح افواج اور پولیس بے دریغ طاقت استعمال کررہی ہے۔ گزشتہ روزایک خبر اخبارات میں شائع ہوئی کہ شہریوں کی احتجاج کے دوران بھارتی فوج اور پولیس نے 100 سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کیا ہے سینکڑوں آنکھوں کی نعمت سے محروم کر دیئے گئے ہیں ۔

اور ہزاروں کی تعداد میں کشمیری معذورکردیئے گئے ہیں۔ بھارتی فوج اور پولیس اسلحہ کا استعمال بھرپور استعمال کررہی ہے شہریوں کی جانب سے پتھراؤ پر بغیر وارننگ گولیاں برسائی جارہی ہیں۔ کشمیریوں کا حالیہ احتجاج زیادہ تلخ اور تند ہے اس سے بھارتی حکومت کو سخت قسم کی ندامت کا سامنا ہے ۔

اس وجہ سے بھارتی حکومت نے حریت کانفرنس کے خلاف کارروائی کی ہے اوراس کے سربراہ کی سیکورٹی کو کم کردیا ہے ۔بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر حریت کانفرنس کے سربراہ کی زندگی کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے ۔

کسی بھی وقت کوئی بھارتی ایجنٹ ان پر حملہ کرسکتا ہے اور ان کو قتل کرسکتا ہے اس سے قبل ان کے والد کو بھی بھارتی حکومت نے قتل کروادیا تھا اس امید کے ساتھ کہ کشمیر میں مزاحمت ختم ہوجائے گی۔

کشمیرکا بنیادی مسئلہ حق خود ارادیت ہے یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ حکومت پاکستان اور دفتر خارجہ کے ترجمان اکثر کہتے رہتے ہیں۔ کشمیر ی عوام کی حق خود اختیاری کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری اس وقت سیتسلیم کرچکی ہے جب بھارت خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے گیا تھا۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں ریکارڈ پر ہیں کہ بھارت کشمیریوں کی رائے جاننے کے لئے استصواب رائے کرائے گا جس میں کشمیریوں سے یہ پوچھا جائے گاکہ وہ بھارت میں رہنا پسند کرتے ہیں یا پاکستان میں شمولیت چاہتے ہیں ،لہذابھارت اس کا پابند ہے کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کرائے اور کشمیریوں کی رائے معلوم کرے۔

اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان دو جنگیں ہوچکی ہیں اور پھر دو باہمی معاہدے بھی ہوئے ایک تاشقند کا اعلامیہ اور دوسرا شملہ معاہدہ ۔دونوں معاہدوں میں بھارت نے چالاکی کے ساتھ کشمیر کے بین الاقوامی مسئلہ کو دو طرفہ تنازعہ قرار دیا اور پاکستان کو پابند کیا کہ وہ باہمی مذاکرات کے ذریعے کشمیر مسئلے کا حل تلاش کرے۔

بھارت نے کامیابی کے ساتھ اقوام متحدہ اوربین الاقوامی برادری کو کشمیر کے مسئلے سے دور کردیا۔ اب بھارت دو طرفہ مذاکرات پر بھی تیار نہیں ہے اور دعویٰ کررہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔

بلکہ وہ پاکستان پر آئے دن الزامات لگاتارہتا ہے کہ پاکستان کشمیر میں دہشتگردی میں ملوث ہے اسی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کشمیر میں اس وقت زبردست طریقے سے مزاحمتی تحریک چل رہی ہے ۔

لیکن حکومت پاکستان اور اس کی دفتر خارجہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی ہے بلکہ اس پوری سیاسی تحریک کو غلط رنگ دے رہی ہے حالانکہ یہ قومی حقوق کی تحریک ہے یہ عوام کے حق خود ارادیت کی تحریک ہے یہ صرف انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف تحریک نہیں ہے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ پولیس نے لاٹھی چارج کیا، آنسو گیس کے گولے فائر کئے، فائرنگ کی اور احتجاجی لوگوں کو منتشر کردیا، بلکہ یہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی تحریک ہے حکومت اس مسئلے کو اجاگر کرے نہ کہ انسانی حقوق کی پامالی کا شور مچائے۔

اس لئے پاکستان کی دفتر خارجہ اور خارجہ پالیسی کے دانشور اپنی سمت درست کرلیں اور کشمیر کے مسئلہ کو حق خود ارادیت کی تحریک کے طور پر پیش کریں کہ کشمیری پاکستان میں شمولیت چاہتے ہیں اس لئے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ ان کو یہ موقع فراہم کرے۔

افسوس کی بات ہے کہ اتنی بڑی تحریک اور کشمیریوں کی اتنی بڑی قربانیوں کے باوجود پاکستانی حکومت کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جانے میں خوفزدہ نظرآرہی ہے حالانکہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں جو تاشقند اعلامیہ اور شملہ معاہدے سے زیادہ اہم ہیں۔

حکومت کشمیر کا مسئلہ فوری طور پر اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل میں لے جائے اور اس کا حل تلاش کرے۔