موجودہ مسلم لیگی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتی جارہی ہے اور تیزی سے نئے انتخابات کی طرف ملک رواں دواں ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ کی وفاقی حکومت نے کوئی ایک قابل ذکر معاشی منصوبہ یا میگا پرجیکٹ بلوچستان کو نہیں دیا۔
حالانکہ یہ ملک کا پسماندہ ترین اور غریب ترین صوبہ ہے ۔بلکہ کوئی پرانا منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوا، کچھی کینال گزشتہ 25 سالوں سے زیر تعمیر ہے اس پرتعمیر کی لاگت بڑھ کر 125 ارب روپے تک جا پہنچی لیکن پھربھی اس کا پہلا مرحلہ مکمل نہیں ہوا۔
دوسرا اہم منصوبہ پٹ فیڈر کی صفائی، اس کی توسیع اور اس کی تعمیر نو کا ہے ، اس کے لیے مختص پوری رقم ہڑپ کرلی گئی اور اس پر کوئی کام بھی نہیں ہوا۔ گوادر کی بندرگاہ اور اس سے متعلقہ اسکیم میں کوئی بھی کام مکمل تو کیا ، شروع بھی نہیں ہوا۔
آزاد ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اگر حکومت پاکستان کی دلچسپی کا یہی حال رہا تو گوادر کی بندرگاہ آئندہ صدی تک فعال نہیں ہوگی ۔گوادر اور سی پیک سے متعلق جس قدر سرکاری پروپیگنڈہ جاری ہے وہ نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔
چاہ بہار ایک عام اور کم گہرائی والی بندرگاہ ہے ،وہ فعال ہے ایران کو سالانہ کئی ارب ڈالر کما کردے رہا ہے اور ملک کے اندر تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے رہا ہے اس چھوٹی سی بندرگاہ پر دنیا کے امیر ممالک 54 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں، ان میں جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت شامل ہیں۔
چاہ بہار میں دو بڑے آئل ملزبھی لگنے جارہے ہیں جن میں 35 لاکھ ٹن آئل پیدا ہوگا مگر پاکستان کی حکومت کو گوادر بندرگاہ کی تعمیر میں دلچسپی ہی نہیں ہے، اس کو فعال بنانا تودور کی بات ہے۔
گزشتہ چار سالوں میں مسلم لیگ کی حکومت نے گوادر بندرگاہ پر صرف چند ارب روپے خرچ کئے۔ گوادر کے لئے نہ ریلوے لائن ہے نہ ایئر پورٹ ،نہ بجلی ہے نہ پینے کو پانی۔ صنعتی اور تجارتی مقاصد کے لیے پانی کی ضرورت کو نظر انداز کیا بھی جاسکتا ہے لیکن وہاں زندہ انسانوں کے لئے بھی پانی نہیں ہے ۔
ساری ترقی خلاء میں ہورہی ہے شاید وہ انسانوں کے لئے نہیں ہے۔ بلوچستان پاکستان کا نصف ہے اگر ہم بلوچستان کے سمندری حدود کو شامل کریں تویہ آدھے پاکستان سے کہیں بڑا ہے جہاں پر گوادر کے بعد کوئی میگا پروجیکٹ شروع نہیں کیا گیا۔
پہلے مرحلے کی تعمیرات کے بعد وفاقی حکومت نے گوادر بندرگاہ کو نظر انداز کردیاہے مجموعی طور پر وفاقی منصوبہ سازوں نے گوادر بندرگاہ کو کوئی اہمیت نہیں دی اور نہ ہی اس کی تعمیر اور اس کو فعال بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اورجو کچھ حکمران کہتے ہیں وہ صرف اور صرف زبانی جمع خرچ ہے۔
ناقص معاشی پالیسیوں کا ایک پہلو یہ ہے کہ ملک بھر میں چینیوں کو بجلی گھر تعمیر کرنے کے ٹھیکے دیئے گئے مگر یہ تمام بجلی گھر در آمد شدہ کوئلہ استعمال کریں گے، تھر اور بلوچستان کا کوئلہ نہیں۔
اگر سستی بجلی کے لئے کوئلہ ضروری ہے تو پاکستان سے نکلنے والاکوئلہ استعمال ہونا چاہیے نہ کہ جنوبی کوریا سے کوئلہلایا جائے۔ اسی طرح سے ہمارے پاس گیس و افر مقدار میں موجود ہے لیکن اس کو گاڑیوں میں بھر بھر کر ضائع کیا جارہا ہے، سی این جی اسٹیشن بند کردیں امیر لوگ اپنی گاڑیوں میں پیٹرول اور ڈیزل استعمال کریں۔
قدرتی گیس سے بجلی پیدا کریں، اگر گیس کی قلت ہے تو ایران سے درآمدکریں ۔ایرانی گیس بلوچستان کی سرحد پر گبد Gabd میں موجود ہے سازش کے تحت ایرانی گیس کے منصوبہ کو تباہ کیا گیا اب اس کے بجائے چین کی مددسے مہنگے بجلی گھر بنائے جارہے ہیں۔
حبکو کا بجلی گھر دو ارب ڈالر کی لاگت سے زیر تعمیر ہے اس کے مقابلے میں ایران 6 روپے فی یونٹ بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے جبکہ فی یونٹ بجلی کی تیاری میں ہمارے اخراجات 12 روپے فی یونٹ ہیں ۔
ایران ہمارے بلوچ سرحد پر 6 روپے فی یونٹ اور 300 میگا واٹ بجلی فراہم کرنے کو تیار ہے لیکن پنجاب کے حکمران ان دونوں منصوبوں کے صرف اس لئے مخالف ہیں کہ ان کا منبع بلوچستان ہے، پہلے بلوچستان کو فائدہ ہوگا پھر سندھ کی باری ہے ۔
واضح رہے کہ پنجاب کے خادم اعلیٰ میاں شہباز شریف نے اعلانیہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ نواب شاہ تک محدودہے ۔یعنی واضح الفاظ میں یہ کہ پاکستان صرف پنجاب ہے سندھ اور بلوچستان اس کے حصے نہیں ہیں اور ان کو ترقی کرنے کا حق حاصل نہیں۔
روز اول سے ایران سے گیس اور بجلی درآمد کرنے کے منصوبہ بند ہیں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت نے پہلے ہی دن آکر ان منصوبوں کو بند کردیا، البتہ سفارتی منافقت جاری رکھی کہ ایران قیمت کم کرے اور دوسرے بہانے بنائے تاکہ سندھ اور بلوچستان کے عوام ایرانی گیس اور بجلی کے منصوبوں سے فائدہ نہ اٹھاسکیں۔
موجودہ معاشی اور سیاسی صورت حال میں کسی تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آرہے، بلوچستان تاحد نظر پسماندہ اور غریب تر نظر آرہا ہے ۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے 70 سالوں سے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی جس سے بلوچستان میں پسماندگی اور غربت کا خاتمہ ہو۔
ہمارے سیاسی اکابرین کو بنیادی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں وہ صرف اور صرف ذاتی اور گروہی مفادات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔